خواب آور خطبات، تقریریں اور لیکچرز

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

لیجئے جناب یہ والا جمعہ تو ہم نے اپنے باباجی کی اقتداء میں پڑھا ہے جاننے والے اور انہیں سننے والے جانتے ہیں کہ ان کی باتیں سنتے سنتے پپوٹے بھاری نہیں ہوتے۔ ان شاء اللہ اس کے اقتباسات کسی دن پیش کروں گا۔

آپ نے کبھی خواب آور جمعے، تقاریر اور لیکچر سنے ہیں؟ یقینا سنے ہوں گے میں نہیں مانتا کہ نہ سنے ہوں بھائی پاکستان میں آجکل مقررین اورہرجگہ پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ہماری کلیات دانش میں ایسے خطباء کو خطیب بے لگام لکھا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کے خطابات خواب آور ہوتے ہیں، اس خطاب کے دوران میں نیند کی حسین وادی بھی آسانی دیکھ لی جاتی ہے اگر طویل ہوجائے تو سر سے پاؤں تک زمین کا سہارا بھی لینا پڑ جاتا ہے۔

 کچھ کے دانشمندانہ، مدبرانہ یہ عموما مختصر ہوتے ہیں کام کی ایک بات نہیں کئی باتیں دماغ میں چپک جاتی ہیں۔

کچھ خطیب اتنے ہیبت ناک انداز میں خطاب فرماتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے ہتھی پے جانا ائے (ہاتھا پائی ہوجائے گی) سننے والوں کو کچھ سمجھ آئے نہ آئے یہ ضرور سامعین کو یاد رہ جاتا ہے کہ سپیکر کتنی دفعہ گرا تھا

 تیسری قسم مناظرانہ ہوتی ہے جس میں بعض اوقات ایک ہی تقریر میں سینکڑوں لوگ کافرہوچکے ہوتے ہیں اس قسم کی تقریر میں میرے جیسا بندہ صرف یہ سیکھتا ہے کہ بتنگڑ کیا ہوتا، رائی کا پہاڑ کیسے بناتے ہیں، بات سے بات کیسے نکالنی ہے اور پھر سلسلہ ٹوٹنے نہیں دینا دور کی کوڑی اندھیرے میں کیسے سوجھتی ہے؟ اور اسی کی ایک subcategory  ایسی بھی ہوتی ہے جس میں ایک مسلک کے لوگ دوسروں کی نقلیں اتارکر یا جگتیں مارکر اپنوں کو محظوظ کرتے ہیں۔

بعض خطباء کا خطاب اتنا طویل ہوتا ہے کہ بندہ اچھی خاصی نیند بھی پوری کرلیتا ہے۔

حالانکہ نبی ﷺ کی واضح حدیث موجود ہے :

قَالَ أَبُو وَائِلٍ خَطَبَنَا عَمَّارٌ فَأَوْجَزَ وَأَبْلَغَ فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا يَا أَبَا الْيَقْظَانِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ فَلَوْ کُنْتَ تَنَفَّسْتَ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ وَإِنَّ مِنْ الْبَيَانِ سِحْرًا
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر
۲۰۰۳:
واصل بن حیان نے کہا کہ ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا جو مختصر اور نہایت بلیغ تھا جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا اے ابوالیقطان آپ نے نہایت مختصر اور نہایت بلیغ خطبہ دیا اگر میں خطبہ دیتا تو ذرا لمبا دیتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی کا لمبی نماز اور خطبہ کو مختصر پڑھنا یہ اس کی سمجھداری کی علامت ہے پس نماز کو لمبا کرو اور خطبہ کو مختصر کرو کیونکہ بعضے بیان جادو جسے اثر رکھتے ہیں۔ (یہاں سے)
(صحیح مسلم ، کتاب الجمعہ ، باب تخفیف الصلوٰۃ و الخطبۃ)

اس معاملے کی وجہ سے عموما لوگ مسجد میں نماز سے چند لمحے پہلے ہی آتے ہیں۔ اور احناف کے ہاں صرف دوسری اذان کے بعد جب دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے تب آتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا حکم بھی موجود ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ﺍﮮ ﻭﮦ ﻟﻮﮔﻮ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ ! ﺟﻤﻌﮧ ﻛﮯ ﺩﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﻛﯽ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﹴ ﻛﮯ ﺫﻛﺮ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﮌ ﭘﮍﻭ ﺍﻭﺭ ﺧﺮﯾﺪ ﻭﻓﺮﻭﺧﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ۔ (١) ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ۔ (سورۃ الجمعۃ)

ہمیں کوشش کر کے پہلے پہنچنا چاہیے اور علماء کرام بھی اپنے خطبات مختصر رکھیں تاکہ لوگ اللہ کے حکم ماننے میں آسانی محسوس کریں۔

خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی تقریریں اور کلاس روم میں لیکچر سنتے ہوئے نیند آجاتی ہے جو لوگ اس بیماری کا شکار ہیں پریشان ہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے؟

آپ کچھ بتائیں گے؟

جمعے کے علاوہ بھی ایک مصروفیت تھی ہم نے دھوبی گھاٹ میں جلسہ استحکام پاکستان میں بھی شرکت فرمائی جس میں جناب سید منور حسن صاحب تشریف لائے ہوئے تھے

اتوار 25 مارچ کو جمعیت علمائے اسلام (مولانا شاہ احمد نورانی) کا جلسہ بھی ہے ہمارا ارادہ بن رہا ہے اس میں بھی شرکت کریں۔

ہمارے فیصل آباد کو بھی اعزاز حاصل ہورہا ہے قومی سطح کی ایک پارٹی کا اعلان یہاں سے ہورہا ہے آپ نے کبھی نام سنا پاکستان نیشنل مسلم لیگ ارے عوامی مسلم لیگ نہ سمجھیے گا اس کے سربراہ امجد وڑائچ صاحب ہیں۔ یہ بھی قومی سطح کا جلسہ 27 مارچ کو کرنے جارہے ہیں

اسی طرح یکم اپریل کو جماعت الدعوۃ 1 اپریل کو اسی دھوبی گھاٹ میں جلسہ کرے گی۔ ان شاء اللہ جہاں جہاں شامل ہوئے کچھ احوال ہم لکھیں گے۔

شہادت حسین، شہادت بابری مسجد

10 Muharram Shahadat Hussain

10 محرم کو کربلا میں حسین شہید ہوئے

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اسکی حسین، ابتداء ہیں اسماعیل

آج کا دن یوم عاشور جس کے متعلق نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ کہ ہم تمہارے (یہودیوں) اعتبار سے زیادہ موسیٰ کے حقدار ہیں۔چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ Read more »

حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ احادیث رسول ﷺ میں

حضرت عثمان بن عفان خلیفہ ثالث 18 ذوالحجہ کو شہید ہوئے اسی مناسب سے نبی اکرم ﷺ کی احادیث میں حضرت عثمان کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں وہ پیش کیے جارہے ہیں۔ Read more »

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں (امیر الاسلام ہاشمی)

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں Read more »

عشرہ ذوالحج اور عید الاضحیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
زمین میں ہر طرف فساد ہی فساد ہے اور انسانوں نے روئے زمین کو اپنے گناہوں سے بھر دیا ہے ایسے میں ایک دفعہ پھر گناہوں کوبخشوانے، نیکیاں اکٹھی کرنے، درجات کو بلند کروانے کا موسم آگیا ہے۔ ہاں وہی موسم جس میں بندے دیوانہ وار اپنے حقیقی الٰہ اور معبود کے گھر کے گردا گرد دیوانہ وار چکر لگا رہے ہیں۔ Read more »

عافیہ صدیقی کے اغواء کے متعلق انکشافات پر مبنی خفیہ ٹیپ

اسلام آباد: پاکستانی خاتون ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے کراچی سے پاکستانی خفیہ ادارے کی جانب سے اغواء، امریکا کو حوالگی اور دوران قید گزرنے والے مختلفمراحل پرمبنی انکشاف انگیز آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی ہے۔آڈیوٹیپ کے مطابقعافیہ کااغواء سندھ پولیس کے کائونٹر ٹیررازم سیل کے اس وقت کے سربرا ہعمران شوکت کی جانب سے عمل میں آیا تھا۔

امریکا کی جانب سے افغانستان میں فوجیوں پر فائرنگ کےالزام میں86برس کی سزاپانے والی پاکستانی خاتون سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وکیل رینا فوسٹر سے منسوب جاری کی جانے والی چار گھنٹے کی آڈیو ٹیپ میں عافیہ صدیقی کی گرفتاری،پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں امریکا کو حوالگی کے مختلف مراحل پرمبنی ریکارڈ شدہ گفتگوموجودہے۔

یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوان کےتین بچوں سمیت اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ امریکا پر حملوں کے منصوبے اوردھماکہ خیز مواد پر مبنی کیمیکل اپنے بیگ میں لئے گھوم رہی تھیں۔ایم آئی ٹیکی ماہر خاتون کو 2003ء میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے اغواء کے بعد5برس تک پس پردہ رکھا گیا۔2008ء میں انہیں بگرام ائیر بیس پر امریکی فوجیوں پرحملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اس جرم کے تحت عافیہ کونیویارک کی عدالتنےامریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی مبینہ کوشش پر طویل سزا سنائی۔

قبل ازیں پاکستانی حکومت پانچ برس تک عافیہ صدیقی کی گرفتاری یا امریکاحوالگی کا انکار کرتی رہی تھی لیکن انہیں منظر عام پر لائے جانے اورامریکیعدالت میں مقدمہ شروع ہونے کے بعد20لاکھ ڈالر امریکی وکیلوں پرخرچ کر چکیہے۔۔اس وقت بھی پاکستانی حکومت نے میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس کی نفی کی تھی جن کے تحت پاکستانی خفیہ ادارے انٹر سروسزانٹیلی جنس کو عافیہ کیگرفتاری اور امریکا حوالے کرنے کاذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔جب کہ امریکیخفیہ ادارے ایف بی آئی نے بھی عافیہ کی موجودتی کی تردید کی تھی۔
عافیہ صدیقی کے اغواء،امریکی حوالگی اور دیگر تفصیلات پر مبنی آڈیو ٹیپسامنے آنے کواس کیس کے تناظر میں دھماکہ خیز پیش رفت قرار دیتے ہوئے ماہرینکاکہناہےکہ یہ بہت سارے مصنوعی طور پر اپنائے گئے موقف کاخاتمہ کر دے گا۔جسسے سب سے زیادہ متاثر امریکی موقف اور اس کے نظام انصاف کے تحت کیا جانےوالا فیصلہ ہوگا۔

سامنے آنے والی آڈیو ٹیپ کے پس پردہ بچوں کی آوازوں کی موجودگی بتاتی ہے کہاسے کسی معمول کی صورتحال میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔عافیہ صدیقی کا مقدمہ لڑنےوالے وکلاء میں سے ایک کی جانب سے ریلیز کردہ گفتگو ایسے نامعلوم ذریعے نےانہیں دی ہے جس کے مطابق”عافیہ صدیقی کی حوالگی میں پاکستانی کائونٹرٹیررازم کے ملوث ہونے کاسن کر وہ حیران رہ گیا،اسے سامنے لانے کےلئے گفتگو کے دوسرے روزوہ ریکارڈنگ ٹیپ لے کر مذکورہ مقام پر پہنچااور طویل گفتگو کوریکارڈ کر لیا”۔

پاکستانی صوبہ سندھ کی پولیس میں سپریٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے پر موجودعمران شوکت کی گفتگو پر مبنی آڈیو ٹیپ دی نیوز ٹرائب کو موصول ہوئیہے۔اردو،پنجابی اورانگریزی زبانوں میں کی گئی گفتگو پر مبنی ٹیپ کا کلدورانیہ4گھنٹے35منٹ کاہے۔

ٹیپ کے مطابق عمران شوکت [جو آڈیو میں دوسری آوازہیں]کہتے ہیں”وہ کراچی میںتعینات اور صوبہ سندھ کے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے طور پر تعیناتتھے۔ذیل میں آڈیو ٹیپ کے چند ٹرانسکرائپڈ حصے دئیے جا رہے ہیں۔

پہلی آواز[ریکارڈ کرنے والا]کیا آپ نے اسے گرفتار کیا؟

دوسری آواز[عمران شوکت]ہاں میں نے اسے گرفتار کیاتھا،وہ حجاب اور چشمہ پہنے
ہوئے تھی،گرفتاری کے وقت وہ اسلام آباد جا رہی تھی جب۔۔۔

پہلی آواز:گرفتاری کے بعدکیا ہوا،آئی ایس آئی نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا؟

دوسری آواز: جی ہاں ہم نے انہیں آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا

پہلی آواز: آئی ایس آئی یا کسی اورادارے کو

دوسری آواز: آئی ایس آئی،ہم نے ان کے حوالے کر دیا

اس وقت ایک تربیتی کورس کےسلسلے میں امریکہ میں موجودعمران شوکت نے عافیہصدیقی کو “دبلی پتلی” اور”نفسیاتی” قرار دیتے ہوئے کہا”وہ القاعدہ کی اہمشخصیت نہیں چھوٹا موٹاکردار”ہو سکتی ہے۔

گزشتہ برس موسم بہار میں ریکارڈ کی گئی گفتگو کے ایک حصے میں جو عافیہصدیقی کی بیٹی مریم کی ان کی پاکستان حوالگی کے حوالے سے ہے کہا گیا ہے

پہلی آواز: مریم گزشتہ روز گھر والوں کو مل گئی

دوسری آواز: وہ گھرپرہے

پہلی آواز: ہاں وہ گھر پرہے،وہ صرف انگلش بول سکتی ہے۔وہ قید میں تھی،وہسات سے آٹھ برس کی ہے،وہ صرف انگریزی بول سکتی ہے۔

نامعلوم مردانہ آواز: 8سال کی

پہلی آواز: ہاں،بچے جیل میں تھے جہاں ان سے امریکی لہجے کی انگلش ہی بولی
جاتی تھی

نامعلوم مردانہ آواز: کیا وہ گھر پہنچ گئی

پہلی آواز: ہاں وہ گھر پہنچ گئی ہے

دوسری آواز:ہاں لے آئے

پہلی آواز: کیا واقعی

دوسری آواز:پانچ چھ ماہ پہلے

پہلی آواز: وہ تو آج یا کل گھر پہنچی ہے

دوسری آواز:میرے آنے سے پہلے ہی یہ ہو چکا تھا

پہلی آواز: میں نے خبر پڑھی ہے کل، آج یا شاید کل رات کو

پہلی آواز: یہ دو یا تین ماہ پرانی بات ہے

گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید مریم گھر پہنچ گئی ہے جس پر بات کی جا رہی ہے،لیکن عافیہ صدیقی کے بچوں کی وکیل ٹینا فوسٹر کاکہنا ہے کہ اس سے مرادمریم کی اہلخانہ کو نہیں بلکہ پاکستان پہنچنا ہے۔

دریں اثناء عمران شوکت نے اپنی گفتگو میں یہ بھی ذکر کیا کہ پاکستانی پولیس اور خفیہ ادارہ کیسے لوگوں کو غائب کرتا ہے۔اورزیرحراست افراد کو کیسےاستعمال کیا جاتا ہے۔پاکستانی میڈیا رپورٹس اوروار آن ٹیررکے دوران غائب ہونے والے افراد کی بازیابی کےلئے کام کنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کاکہناہےکہ”اس وقت بھی5سو افراد غائب ہیں”۔جب کہ سندھ اور بلوچستان کی
پاکستان سے علیحدگی کےلئے لڑنے والےاس کے علاوہ ہیں۔آڈیو ٹیب میں ایک مرحلےپر عمران شوکت کاکہناہے”یہ ڈبل ڈیلنگ کاکارنامہ ہے،جس کے تحت انہیں دائیں دکھا کربائیں نکال دیا جاتا ہے”۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی القاعدہ سے وابستگی،امریکی فوجیوں پر حملے اور امریکاپردہشت گردی کی کارروائیوں کی پلاننگ کرنے جیسی باتیں گزشتہ8برسوں سےزیرگردش ہیں تا ہم پہلی بار اس کارروائی میں ملوث اعلی سطحی ذریعے کی سامنےآنے والی آڈیو ٹیپ نے متعدد حقائق کی تصدیق کر دی ہے۔

اس موقع پر یہ بھی واضح ہوا ہے کہ عافیہ صدیقی کو خفیہ حراست کے دوران5برستک 1996اور98ء میں پیدا ہونے والے دونوں بڑے بچوں احمد اور مریم سے الگ سیلمیں رکھا گیا تھا جب کہ چھ ماہ کے سلیمان کو ان کے ساتھ رکھا گیا تھا جو مبینہ طور پرانتقال کر گیا ہے۔

قبل ازیں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق عافیہ صدیقی کا تعلق ایک ایسےگھرانے سے ہے جو انتہائی پڑھا لکھا اور اس کے متعدد افراد امریکہ میں مقیمتھے۔عافیہ صدیقی نے اپنی تعلیم کا بڑاحصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیاجہاں انہوں نے ایم آئی ٹی کے تحت بائیالوجی میں گریجویشن کی،جب کہ بعد میں
cognitive neuroscience میں پی ایچ ڈی کی۔اپنے تعلیمی مراحلے کے ساتھ بوسٹن میں مسلمان کیمونٹی کی سماجی سرگرمیوں میں بڑح چڑح کر حصہ لیا۔جس میں بوسنیا کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے خاندانوں کےلئے فنڈز جمع کرنے کی غرض سے کیک فروخت کرنااور دیگر فنڈ ریزنگ سرگرمیوں میں شرکت شامل تھی۔

اسی دوران ان کی شادی پاکستانی نژاد ڈاکٹر امجد سے ہوئی جن سے ان کے دو بچے ہیں۔ ٹیلیفون پر ہونے والے نکاح سے شروع ہونے والی ازدواجی زندگی اس وقت ختمہوئی جب ایک روز عافیہ صدیقی اپنے منہ پر زخم لئے بوسٹن کے مقامی ہسپتال آئیں۔اس موقع پر ان کے شوہر ڈاکٹر امجد نے یہ تسلیم کیا کہ “عافیہ ان کی جانب سے اپنے اوپر پھینکی گئی ایک بوتل سے زخمی ہو کر ہسپتال گئی
تھی”۔2001ء میں وہ واپس پاکستان آئیں جہاں ان کے والد کا انتقال ہوا،اس وقت عافیہ صدیقی کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت متوقع تھی۔اس موقع پر ڈاکٹر امجد نے عافیہ سے علیحدگی اختیارکرکے فورا دوسری شادی کر لی۔اس سے قبل ڈاکٹر امجدامریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کی جانب سے ایک تفتیش کا نشانہ بن چکے تھے جس
میں ان سے انٹرنیٹ پر بوسٹن سے خریدی گئی چند اشیاء کے متعلق پوچھ گچھ کی گئی تھی۔جس کا انہوںن نے جواب دیا تھا کہ یہ شکار کےلئے خریدی گئی کچھ اشیاء ہیں۔ڈاکٹر امجد نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اس موقع پر وہ گرفتار نہین ہوئے تاہم وہ اور ان کی اہلیہ مشکوک ہو گئے تھے۔

2003ء میں ایف بی آئی کی جانب سے عالمی سطح پر یہ اعلان نشر کیا گیاتھا کہعافیہ صدیقی اور ان کے شوہر پوچھ گچھ کےلئے مطلوب ہیں۔جس کے چند ہفتوں بعد عافیہ صدیقی غائب کر دی گئی تھیں۔جب کہ ان کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد سے پاکستانی اور امریکہ اہلکاروں نے چار گھنٹوں سے زائد انٹرویو کیا تھا۔بعدازاں ڈاکٹر امجد نے خفیہ اداروں سے منسب یہ بات کہی تھی کہ ان کی اہلیہ روپوش ہو گئی ہیں جب کہ ان کے بچوں کا کوئی علم نہیں ہے۔ایک مرحلے پر
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے ڈرائیورکے ہمراہ2005ء میں انہوں نے عافیہ صدیقی کوکراچی میں ایک ٹیکسی میں سواری کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

2008 میں عافیہ صدیقی کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد پاکستانی میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد خان کا کہنا تھا کہ “عافیہ ایک انتہا پسندہے،یہی اس کے غائب ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے”۔
ایف بی آئی کی جانب سے اس موقع پریہ کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے حوالے سےانتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں عافیہ صدیقی کی شمولیت 9/11حملوں کےمبینہ ماسٹرمائنڈخالد شیخ محمد کے بھتیجے عمر بلوچ سے ان کی شادی ہے۔تاہم عافیہ صدیقی کے اہل خانہ نے ان اطلاعات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔اس موقعپراقوام متحد کی جانب سے انہیں سوڈان سے القاعدہ کےلئے ہیرے اسمگل کرنے میں
بھی ملوث قرار دیاگیا تاہم عافیہ صدیقی کی وکیل Elaine Sharp نے عدالت میںیہ موقف اختیار کیا کہ “عافیہ کی انہی دنوں بوسٹن میں موجودگی ثابت شدہہے”۔اس کے بعد یہ الزامات کسی حد تک مشکوک ہوئے تھے۔

پانچ برس تک کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ عافیہ صدیقی اور ان کے بچےکہاں ہیں لیکن اس حوالے کچھ نہ کچھ افوائیں گردش میں آتی رہیں۔ بگرام جیل کے بعض سابق قیدیوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو بگرام جیل میں دیکھا تھا جبکہ وکی لیکس کے مطابق امریکی حکام اس بات کو ماننے سےانکار کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے سینئر صحافی نجیب احمد جو کہ اس اسٹوری کو پانچ سال تک کور کرتے رہے ہیں اپنے ایک ذرائع جو کہ عافیہ کو گرفتار کرنے والی ٹیم کا حصہ تھا کےحوالے سے پتایا تھا کہ ایف بی آئی کے ساتھ جوائنٹ آپریشن کیا گیا ۔

جولائی 2008 کے وسط میں ایک پاکستانی وکیل نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں درخواست دائر کی تو چند ہی دن کے بعد عافیہ صدیقی دوبارہ افغانستان کے صوبہ غزنی سے منظر عام پر آئیں اور اس دفعہ ان پر الزام تھا کہ وہ ایک ایسا بیگ لے کر جا رہی تھی جس میں کیمیائی اور بائیلوجیکل ہتھیار بنانے کے طریقہ کار اور امریکی حکام کو بڑا جانی نقصان پنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔اور اس کے بعد عافیہ صدیقی پرغزنی کے ہی پولیس اسٹیشن میں ایک امریکی اہلکار پر فائرنگ اور اسے بری طرح زخمی کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

اس کے بعد عافیہ صدیقی امریکی فوجی اور ایف بی آئی ایجنٹ پر حملے کے جرم کا نیویارک میں ٹرائل کیا گیا لیکن وہاں ان پر القاعدہ سے تعلق اور دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں تھا۔

عافیہ صدیقی کو فراہم کی گئی قانونی ماہرین کی ٹیموں میں سے بھی بعض اچھی ٹیم نہیں تھیں۔ عافیہ صدیقی کو کورٹ کی جانب سے فراہم کیے جانےوالے وکیلLiz Fink تھے جنہوں نے بعد میں معذرت کر لی تھی، عافیہ صدیقی کو کورٹ کی جانب سے دوسری قانونی ٹیم فراہم کی گئی جس کی قیادت Dawn Cardiکر رہے تھے جبکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے تعینات کی گئی وکلا کی ٹیم کی قیادت LindaMoreno کر رہے تھے۔

یہاں تک کہ عافیہ صدیقی پر قائم فائرنگ کا کیس عجائبات اور تضادات سے بھرا ہوا تھا جن میں عافیہ صدیق پر گن اٹھانے کا کوئی طبعی ثبوت کا نہ ہونا،گولوں کے خول کا نہ ہونا، کمرے کی دیواروں پر گولیاں لگنے کے نشانات کا نہ ہونا شامل تھا تاہم دوسری بندوق کے نشانات موجود تھے جس سے عافیہ صدیقی زخمی ہوئیں تھیں۔ ڈیفنس کونسل کی جانب سے افغانستان کے 2دورے بھی کیے گئے جس میں فرانزک شواہد اکھٹے کی گئے جن کے مطابق ڈی این اے سمیت کوئی
ایسا ثبوت نہیں تھا کہ عافیہ صدیقی نے گن کو چھوا ہو ۔

ڈاکٹر صدیقی کے وکلاء کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے اور وہ مستقل کورٹ میںان کو ہٹانے کے اظہار کرتی رہیں ۔ کئی وکلاء ایسے بھی تھے جو صرف ان کو کورٹ میں نظر آئے۔

Linda Moreno کے مطابق یہ بات کافی پریشان کن تھی کہ عافیہ صدیقی کا کسی وکیل پر اعتبار نہیں تھا۔

وکلاء کی جانب سے سختی سے منع کرنے کے باوجود ڈاکٹر صدیقی نے خود کورٹ کو کہا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیااور امریکہ کے حوالے گیا ۔انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے بچوں کو بھی خفیہ جیل میں تشدد کا نشانہبنایا گیا۔دوسری جانب امریکی حکومت کی جانب سے ان الزامات کی کبھی بھی
تردید نہیں کی گئی۔
بشکریہ اردو ورژن

English Version
Audio File
PDF files

دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 2

مٹی اور پتھر کےان خداؤں اور شفیعوں کو عرب میں رواج دینے والا قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص عمر نامی تھا جو ملک شام میں گیا اور ان حاجت رواؤں کو وہاں سے اٹھا لایا۔ چند بت کعبہ کے اس پاس لا کر نصب کردئیے ۔ حرم کعبہ کی مرکزیت کے سبب بت پرستی کی اشاعت عام ہوئی۔ ہر قبیلے نےا پنا پنا بت الگ تراشا، طائف کا قبیلہ ثقیف لات کو،اور خزرج اور اوس کے یثربی قبائل منات کو پوچجنے لگے۔ مکہ کے قریش و کنانہ عزیٰ کے پرستار بنے۔ ہبل کا بت کعبے کی چھت پر نصب کیا گیا۔
بیشترلوگوں کی عقل پر تو یوں پتھر پڑے۔ بعض حقیقت نا شناس لوگوں نے آفتاب اور ماہتاب کی چمک دمک دیکھ کر گمان کیا۔ کہ خدا ان ہی خوبصورت آنکھوں سے دنیاکو جھانکتا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا احساس کہاں کہ کواکب کے تحیر خیز حسن کا پوردگار اور ہے اور وہ حسینوں سے حسین اور مطہر و اطہر ہے۔ غرض اصنام پرستی اور مظاہر پرستی کی وبا جو ربع مسکو پر پھیلی ہوئی تھی، عرب اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ تاہم بعثت نبوی سے پہلے شرک کی ان تاریکیوں میں کہیں کہیں توحید خالص کی تنویر بھی دکھائی دینے لگی تھی۔ کچھ جادہ شناس اور حقیقت طلب لوگ ایسے بھی تھے جو جماد لایعقل کے سامنے سر بسجود ہونے کو شرف انسانی کے دامن پر بدنما داغ سمجھتے تھے۔ ان میں ورقہ بن نوفل، عبد اللہ بن حجش، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو مکہ کے باشندے تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو پکے موحد اور شرک سے مجتنب تھے۔ ان طالبان حقیقت میں دو ایسے عارفان عالی مقام تھے جو مطلع اسلام پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ارواح سعیدہ بعثت سے پہلے نہ صرف ذات باری تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتی تھیں۔ بلکہ مہر سپہر نبوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں تھی کہ کب وہ آفتاب طلوع ہو اور ہم مزید روشنی حاصل کریں۔
مکہ، جس کا اصل نام بکہ ہے، ساحل سمندر سے ساٹھ میل دور پہاڑوں میں محفوظ مقام ہے۔ خدا سے حکم پاکر اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان اکے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے خدا کا سادہ سا گھر تعمیر کیا، تاکہ لوگ عبادت کے لئے جمع ہوں، اس گھر کی نہ چھت تھی نہ دروازہ تھا نہ دہلیز تھی۔ اس ارض پاک کی چار دیواری بلندی میں نو، طول میں بتیس اور عرض میں بائیس گز تھی۔ اس برکت والے گھر کی کشش دورونزدیک سے لوگوں کو کھینچ لائی اور پاک لوگوں کی ایک چھوٹی سی بستی آباد ہوگئی جو پاس ادب سے اس کے اردگرد عمارت نہ بناتے تھے۔ صرف خیموں میں ہی بسر اوقات کیا کرتے تھے۔ مکہ میں سب سے پہلی عمارت ایک شخص سعد یا سعد بن عمر نے بنائی۔ سب سے پہلے یمن کے حمیری بادشاہ اس تبع نے حرم کعبہ پر غلاف چڑھایا۔
انقلاب عالم کی نیرنگیاں دیکھو۔ حرم کعبہ جس کی بنیاد دنیا کے مشہور بت شکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ڈالی، اب اس ارضِ پاک میں تین سو ساتھ بتوں نے اپنا اکھاڑہ جمالیا۔ ہبل کا بزرگ بت جو سقف حرم پر نصب تھا، خدائے قدوس کی عظمت و جلال کو چیلنج دینے لگا۔ ان کے پوجنے والے گلزار ابراہیمی کے وہ نونہال ہیں جو گل توحید بنے رہنے کے بجائے چشم کعبہ میں خارِ شرک ہوکر کھٹکنے لگے۔ خانہ کدا کے ان دو پاک معماروں یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو کیا خبر تھی کہ خدا کے اس گھر میں کبھی بتوں کی خدائی ہوگی اور خود انہی کی اولاد مٹی کی مورتیوں کے سامنے جھک جائے گی۔

سفرِ حج اور سفرِ آخرت (امام غزالی)

اے دوست! خانہ کعبہ خداے عزوجل کا گھر ہے، یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کا دربار ہے۔ تم اُس کے دربارِ شاہی میں جا رہے ہو، گویا اسی کی زیارت کو جا رہے ہو۔ بے شک اس دنیا میں تمھاری آنکھ دیدارِ الٰہی کی استعداد نہیں رکھتی۔ Read more »

ایم کیو ایم کے راہنماء عمران فاروق کا قاتل کون ہے؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

کراچی جو کم و بیش دو کروڑ انسانوں کی بستی ہے جس کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے کراچی کا نام سن کر جہاں مزار قائد اور ساحل سمندر روح وبدن کو سرشار کردیتے ہیں وہیں بوری بند لاشیں، غیر ریاستی عناصر کے متعین کردہ ممنوعہ علاقے، بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ سن کر بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ انسانوں کی اسی بستی میں 1992 تک عمران فاروق بھی رہا یہ شخص اسی شہر میں پیدا ہوا تھا اس کے والدین نہ جانے کتنی قربانیاں دینے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر پہنچے تھے ایسے سب آنے والوں پر عموماً مہاجر کا ٹھپہ لگتا تھا یہ عنوان جنہوں نے دیا تھا وہ دعویٰ کرتے تھے کہ سب سے اچھا وہ ہے جس کے دل میں اللہ کا تقویٰ سب سے زیادہ ہے۔ مگر شائد عمران فاروق تک یا مہاجر کو کم ذات قرار دینے والوں تک یہ بات نہ پہنچی تھی یا شائد پہنچی  بھی ہو لیکن شیطان نے بھلا دی ہو انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آل پاکستان مہاجر موومنٹ کی بنیاد رکھی عمران صاحب بائیں بازو سے جڑنے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے مسلم ملک میں رہنے اور مسلمان ہونے کے باوجود مارکس کی باتیں کرتے ظاہر ہے مارکس تو اللہ اور اسکے پیارے بندے اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لے کر نہیں جاسکتا تھا وہ تو عصبیت ، قومیت اور مادیت کی طرف ہی لے کر جاتاتھا اور جب بندہ اپنوں سے نالاں ہو تو پھر ٹھگوں کے ہاتھ جلدی لگ جاتا ہے۔

عمران فاروق صاحب مہاجر قومی موومنٹ کے پہلے جنرل سیکرٹری بنے اس دوران میں انہوں نے میڈیکل کی تعلیم بھی مکمل کر لی میرا خیال ہے اس کی مشق تو کبھی نہ کر پائے ہوں گے کیونکہ جیسی ہنگامہ خیز زندگی ان کی تھی اس میں اس  پیشہ سے باقاعدہ اور مسلسل وابستگی مشکل سے ہی ہوتی ہے یہ جوانی میں ہی  قومی اسمبلی کے رکن بن کرطبقہ اشرافیہ میں داخل ہوگئے، اور پھر شاہراہ اقتدار سے واپس نہ آ سکے۔

1992 عمران فاروق صاحب اور ان کے دوستوں کے لئے بڑا سخت پیغام لا یا ان پربہت سے مقدمات کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو تلاش کر رہے تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ عمران صاحب جعلی پاسپورٹ پر بیت افرنگ میں جا گزیں ہوگئے 1995 تک عمران کے دوست اس کے بارے میں یہ کہنے لگے تھے کہ یہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ بک چکا ہے اور اب ان کے لئے کام کرتا ہے لیکن 1999 میں جب طویل عرصہ روپوش رہنے کے بعد عمران فاروق منظر عام پر آئے تو انہیں پارٹی کی رابطہ کمیٹی کا کنوینئر مقرر کیا گیا اس وقت تک پارٹی بھی مہاجر کی بجائے متحدہ ہوچکی تھی آفاق احمد مہاجروں کو لے کر علیحدہ ہوچکے تھے۔

ان کے بارے میں اگلی اہم خبر جو میڈیا میں جاری کی گئی وہ ان کی 2004 میں شادی کی تھی  اس وقت ان کی پارٹی میں رکنیت معطل تھی بس اس کے بعد کبھی بحالی اور کبھی معطلی کی خبریں آتی رہیں آجکل بھی ان کی رکنیت معطل ہی تھی ظاہر ہی رکنیت معطل تھی تو وجہ اختلافات ہی ہوں گے اعلیٰ قیادت یعنی الطاف حسین صاحب کا عدم اعتماد ہوگا اور قائد تحریک کی سالگرہ کے موقع پر ان کا اور پھر اس سےپہلے طارق عظیم کا قتل جن کو الطاف بھائی اپنا بایاں بازو اور عمران کو اپنا دایاں بازو قرار دیتے تھے بہت سے سوال پیدا کرتا ہے۔ مثلاً طارق عظیم کے قاتلوں کی تلاش کے حوالے سے کوئی بیان بازی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی حالانکہ ایم کیو ایم حکومت میں ہے اور گورنر کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہے؟ کہیں عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے بھی تو یہی نہیں ہوگا؟

عموما یہی گمان کیا جارہا ہے کہ پارٹی نے ان کو لیڈر بننے کی سزا دی تھی الطاف بھائی چاہتے تھے کہ عمران گستاخیوں کی معافی مانگیں عجیب بات یہ ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کو ایجنسیوں کے لئے کام کرنے کا طعنہ دیتے تھے ۔ بہرحال اب تو عمران بھائی اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہوں گے اور وہاں تو کسی کو بولنے کی بھی جرات نہیں وہاں ہر زور آور انتہائی پست ہوجاتا ہے اگر یہ لوگوں کے قتل میں ملوث ہوئے تو جوابدہ ہوں گے اور یہ جو دنیا میں لوگ کسی کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ناکہ بندہ ایسا تھا اور ویسا تھا یہ سب گواہیاں ہوتی ہیں ! اور یہ گواہیاں اللہ کےہاں بڑی اہم ہیں۔

اب دیکھ لیں عمران بھائی کے لئے کیا گواہی مل رہی ہے۔ اور ہم سب نے وہیں پیش ہونا ہے کسی کو جرات نہیں ہے کہ وہاں سے بھاگ سکے کوئی جائے پناہ نہیں ہم بھی سوچیں کہ ہم وہاں کیا توشہ لے کر جارہے ہیں۔

کل من علیہا فان     ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام

اللہ رب العزت ہمیں اپنے حضور مجرموں کی طرح کھڑے ہونے کا ڈر دے دے اور اس کے بدلے ہم اپنی اصلاح کے لئے فکر مند ہوجائیں۔ آمین

میرے بلاگ کا نیا ایڈرس

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

تمام احباب نوٹ فرما لیں کہ میں اپنا بلاگ مندرجہ ذیل ایڈرس پر شفٹ کر رہا ہوں:

http://www.blogs.umeeed.com

میں اب آئندہ سے ان شاء اللہ اسی ایڈرس کو استعمال کروں گا۔