دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 2

مٹی اور پتھر کےان خداؤں اور شفیعوں کو عرب میں رواج دینے والا قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص عمر نامی تھا جو ملک شام میں گیا اور ان حاجت رواؤں کو وہاں سے اٹھا لایا۔ چند بت کعبہ کے اس پاس لا کر نصب کردئیے ۔ حرم کعبہ کی مرکزیت کے سبب بت پرستی کی اشاعت عام ہوئی۔ ہر قبیلے نےا پنا پنا بت الگ تراشا، طائف کا قبیلہ ثقیف لات کو،اور خزرج اور اوس کے یثربی قبائل منات کو پوچجنے لگے۔ مکہ کے قریش و کنانہ عزیٰ کے پرستار بنے۔ ہبل کا بت کعبے کی چھت پر نصب کیا گیا۔
بیشترلوگوں کی عقل پر تو یوں پتھر پڑے۔ بعض حقیقت نا شناس لوگوں نے آفتاب اور ماہتاب کی چمک دمک دیکھ کر گمان کیا۔ کہ خدا ان ہی خوبصورت آنکھوں سے دنیاکو جھانکتا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا احساس کہاں کہ کواکب کے تحیر خیز حسن کا پوردگار اور ہے اور وہ حسینوں سے حسین اور مطہر و اطہر ہے۔ غرض اصنام پرستی اور مظاہر پرستی کی وبا جو ربع مسکو پر پھیلی ہوئی تھی، عرب اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ تاہم بعثت نبوی سے پہلے شرک کی ان تاریکیوں میں کہیں کہیں توحید خالص کی تنویر بھی دکھائی دینے لگی تھی۔ کچھ جادہ شناس اور حقیقت طلب لوگ ایسے بھی تھے جو جماد لایعقل کے سامنے سر بسجود ہونے کو شرف انسانی کے دامن پر بدنما داغ سمجھتے تھے۔ ان میں ورقہ بن نوفل، عبد اللہ بن حجش، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو مکہ کے باشندے تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو پکے موحد اور شرک سے مجتنب تھے۔ ان طالبان حقیقت میں دو ایسے عارفان عالی مقام تھے جو مطلع اسلام پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ارواح سعیدہ بعثت سے پہلے نہ صرف ذات باری تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتی تھیں۔ بلکہ مہر سپہر نبوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں تھی کہ کب وہ آفتاب طلوع ہو اور ہم مزید روشنی حاصل کریں۔
مکہ، جس کا اصل نام بکہ ہے، ساحل سمندر سے ساٹھ میل دور پہاڑوں میں محفوظ مقام ہے۔ خدا سے حکم پاکر اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان اکے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے خدا کا سادہ سا گھر تعمیر کیا، تاکہ لوگ عبادت کے لئے جمع ہوں، اس گھر کی نہ چھت تھی نہ دروازہ تھا نہ دہلیز تھی۔ اس ارض پاک کی چار دیواری بلندی میں نو، طول میں بتیس اور عرض میں بائیس گز تھی۔ اس برکت والے گھر کی کشش دورونزدیک سے لوگوں کو کھینچ لائی اور پاک لوگوں کی ایک چھوٹی سی بستی آباد ہوگئی جو پاس ادب سے اس کے اردگرد عمارت نہ بناتے تھے۔ صرف خیموں میں ہی بسر اوقات کیا کرتے تھے۔ مکہ میں سب سے پہلی عمارت ایک شخص سعد یا سعد بن عمر نے بنائی۔ سب سے پہلے یمن کے حمیری بادشاہ اس تبع نے حرم کعبہ پر غلاف چڑھایا۔
انقلاب عالم کی نیرنگیاں دیکھو۔ حرم کعبہ جس کی بنیاد دنیا کے مشہور بت شکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ڈالی، اب اس ارضِ پاک میں تین سو ساتھ بتوں نے اپنا اکھاڑہ جمالیا۔ ہبل کا بزرگ بت جو سقف حرم پر نصب تھا، خدائے قدوس کی عظمت و جلال کو چیلنج دینے لگا۔ ان کے پوجنے والے گلزار ابراہیمی کے وہ نونہال ہیں جو گل توحید بنے رہنے کے بجائے چشم کعبہ میں خارِ شرک ہوکر کھٹکنے لگے۔ خانہ کدا کے ان دو پاک معماروں یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو کیا خبر تھی کہ خدا کے اس گھر میں کبھی بتوں کی خدائی ہوگی اور خود انہی کی اولاد مٹی کی مورتیوں کے سامنے جھک جائے گی۔

No comments yet

تبصرہ کریں