Archive for the ‘محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم’ Category

دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 2

مٹی اور پتھر کےان خداؤں اور شفیعوں کو عرب میں رواج دینے والا قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص عمر نامی تھا جو ملک شام میں گیا اور ان حاجت رواؤں کو وہاں سے اٹھا لایا۔ چند بت کعبہ کے اس پاس لا کر نصب کردئیے ۔ حرم کعبہ کی مرکزیت کے سبب بت پرستی کی اشاعت عام ہوئی۔ ہر قبیلے نےا پنا پنا بت الگ تراشا، طائف کا قبیلہ ثقیف لات کو،اور خزرج اور اوس کے یثربی قبائل منات کو پوچجنے لگے۔ مکہ کے قریش و کنانہ عزیٰ کے پرستار بنے۔ ہبل کا بت کعبے کی چھت پر نصب کیا گیا۔
بیشترلوگوں کی عقل پر تو یوں پتھر پڑے۔ بعض حقیقت نا شناس لوگوں نے آفتاب اور ماہتاب کی چمک دمک دیکھ کر گمان کیا۔ کہ خدا ان ہی خوبصورت آنکھوں سے دنیاکو جھانکتا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا احساس کہاں کہ کواکب کے تحیر خیز حسن کا پوردگار اور ہے اور وہ حسینوں سے حسین اور مطہر و اطہر ہے۔ غرض اصنام پرستی اور مظاہر پرستی کی وبا جو ربع مسکو پر پھیلی ہوئی تھی، عرب اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ تاہم بعثت نبوی سے پہلے شرک کی ان تاریکیوں میں کہیں کہیں توحید خالص کی تنویر بھی دکھائی دینے لگی تھی۔ کچھ جادہ شناس اور حقیقت طلب لوگ ایسے بھی تھے جو جماد لایعقل کے سامنے سر بسجود ہونے کو شرف انسانی کے دامن پر بدنما داغ سمجھتے تھے۔ ان میں ورقہ بن نوفل، عبد اللہ بن حجش، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو مکہ کے باشندے تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو پکے موحد اور شرک سے مجتنب تھے۔ ان طالبان حقیقت میں دو ایسے عارفان عالی مقام تھے جو مطلع اسلام پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ارواح سعیدہ بعثت سے پہلے نہ صرف ذات باری تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتی تھیں۔ بلکہ مہر سپہر نبوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں تھی کہ کب وہ آفتاب طلوع ہو اور ہم مزید روشنی حاصل کریں۔
مکہ، جس کا اصل نام بکہ ہے، ساحل سمندر سے ساٹھ میل دور پہاڑوں میں محفوظ مقام ہے۔ خدا سے حکم پاکر اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان اکے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے خدا کا سادہ سا گھر تعمیر کیا، تاکہ لوگ عبادت کے لئے جمع ہوں، اس گھر کی نہ چھت تھی نہ دروازہ تھا نہ دہلیز تھی۔ اس ارض پاک کی چار دیواری بلندی میں نو، طول میں بتیس اور عرض میں بائیس گز تھی۔ اس برکت والے گھر کی کشش دورونزدیک سے لوگوں کو کھینچ لائی اور پاک لوگوں کی ایک چھوٹی سی بستی آباد ہوگئی جو پاس ادب سے اس کے اردگرد عمارت نہ بناتے تھے۔ صرف خیموں میں ہی بسر اوقات کیا کرتے تھے۔ مکہ میں سب سے پہلی عمارت ایک شخص سعد یا سعد بن عمر نے بنائی۔ سب سے پہلے یمن کے حمیری بادشاہ اس تبع نے حرم کعبہ پر غلاف چڑھایا۔
انقلاب عالم کی نیرنگیاں دیکھو۔ حرم کعبہ جس کی بنیاد دنیا کے مشہور بت شکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ڈالی، اب اس ارضِ پاک میں تین سو ساتھ بتوں نے اپنا اکھاڑہ جمالیا۔ ہبل کا بزرگ بت جو سقف حرم پر نصب تھا، خدائے قدوس کی عظمت و جلال کو چیلنج دینے لگا۔ ان کے پوجنے والے گلزار ابراہیمی کے وہ نونہال ہیں جو گل توحید بنے رہنے کے بجائے چشم کعبہ میں خارِ شرک ہوکر کھٹکنے لگے۔ خانہ کدا کے ان دو پاک معماروں یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو کیا خبر تھی کہ خدا کے اس گھر میں کبھی بتوں کی خدائی ہوگی اور خود انہی کی اولاد مٹی کی مورتیوں کے سامنے جھک جائے گی۔

عرش رسا آوازیں

” ائے اللہ ! میں اپنی ناطاقتی اور بے چارگی اور لوگوں میں اپنی ہوا خیزی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں” ۔
"” آئے ارحم الراحمین! تو ہی ناتوانوں کی پرورش کرنے والا اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔
تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ۔۔؟ کیا کسی اجنبی بیگانے کے۔۔؟ جو مجھے دیکھ کر تیوری چڑھائے ۔۔ یا کسی دشمن کے؟ جس کو تونے مجھ پر غلبہ دے دیا ہو۔
خدایا۔۔۔۔! اگر تو مجھ سے خفا نہیں ہے تو پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں ہے۔
تیری حفاظت میرے لیے بس کافی ہے۔ میں طالب پناہ ہوں تیرے رخ کے اس نور سے جس سے تمام ظلمتیں کافور ہو گئیں ۔۔۔ جس سے دونوں جہاں کی بگڑی بن جاتی ہے ۔ میں طالب پناہ ہوں اس بات سے کہ مجھ پر تیرا عتاب ہو۔۔۔ یا تو مجھ سے روٹھ جائے۔
’’ تاوقت یہ کہ تو خوش نہ ہوجائے تجھے منائے جانا ناگزیر ہے‘‘۔
یہ کون کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟
کس سے کہہ رہا ہے۔۔۔؟
کہاں کہہ رہا ہے۔۔۔؟
یہ خدا کے درپر خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل دہلا دینے والی پکار ہے جو آج سے تقریبآ ڈیڑھ ہزار سال پہلے طائف کی کوہستان وادیوں میں گونجی تھی اور آج صفحہ قرطاس پر اترتی ہے تو جیسے قلم کا جگر کانپ کانپ جاتا ہے۔ یہ پکار جب خدائے سمیع و رحیم نے سنی ہوگی تو رحمت و غیرت کا کیا عالم ہوا ہوگا ۔۔۔ خدا گواہ ہے کہ کوئی اس کا صحیح تصور تک نہیں کرسکتا۔ تاریخ اتنا ضرور بتاتی ہے کہ ادھر یہ فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ترین ہونٹوں سے جدا ہوئی تھی اور ادھر خدا کا جواب آپہنچا تھا ۔۔۔ فضائے کائنات کو چیرتے ہوئے دوعظیم فرشتے فرش خاک پر آکھڑے ہوئے۔ ان میں ایک خود حضرت جبرئیل (ع( تھے اور دوسرا وہ طاقتور فرشتہ جس کے شانوں پر خدا نے پہاڑوں کے نظم و نسق کا بوجھ رکھا ہے۔
’’ السلام علیکم یا رسول اللہ! کمال ادب کے ساتھ جبرئیل امین (ع( نے کہا تھا ’’خدا نے وہ ساری گفتگو بہ نفس نفیس سن لی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے مابین ہوئی۔۔۔ اور اس نے اس فرشتے کو خدمت میں حاضر کیا ہے جس کے سپرد کوہستانوں کا نظام ہے کہ جو حکم آپ چاہیں اس کو دیں‘‘۔

بے رحم انسانوں نے جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا تھا خدائے ارحم الراحمین نے اس کے قدموں پر پہاڑوں کو لاڈالا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارحم الراحمین کی اس بندہ نوازی کو سنا اور ابھی شکر نعمت ہی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ فی الفور دوسرا فرشتہ آگے بڑھا۔
السلام علیکم یا رسول اللہ! وہ عرض کر رہا تھا’’ میں ہی وہ فرشتہ ہوں جو مالک کائنات کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل پر مامور ہوا ہے، اگر ارشاد ہو تو طائف کے دونوں محاذوں کے پہاڑوں کو حرکت دوں اور ایک دوسرے سے اس طرح ٹکرا دوں کہ اس سرپھری آبادی کی کچلی ہوئی لاشوں پر رونے والا بھی کوئی نہ ہو۔
کیسا عجیب و غریب وقت تھا۔۔۔! ائے دل والو ! ذرا سوچو تو سہی ! ایک طرف وہ سنگ دل آبادی ہے جس نے ایک انتہائی رحم کھانے والے کو پتھروں سے مارا ہے۔ اس کا انتہائی پاکیزہ اور بے لوث پیغام سن کر وحشیانہ تمسخر سے تالیاں پیٹیں اور بغلیں بجائی ہیں، فقرے کسے اور پتھراؤ کیا ہے۔ دوسری طرف پہاڑوں کی باگ ڈور خدا نے اپنے مظلوم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی ہے اور پہاڑوں کے نظام پر مامور دیو پیکر فرشتہ ایک اشارے پر اس سفاک بستی کے جفا طرازوں کو سرمہ بناڈالنے کے لیے ہمہ تن اشارہ چشم ابرو کا منتظر ہے اور ان دونوں لرزہ خیز مناظر کے درمیان خود وہی رحم؎ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم حائل ہے جس کے گھائل پیروں سے خون کے فوارے پھوٹ نکلے ہیں ۔۔۔ پاپوش لہو سے چھلک رہے ہیں اور جس کی مظلومیت کے قدم فرط ضعف سے لڑکھڑانے لگے ہیں‘ لیکن جوں ہی اس کو محسوس ہوا کہ ظالموں کے حق میں خدا عذاب کا فیصلہ کیے چاہتا ہے۔ وہ اپنے ہر زخم کی کسک کو بھول گیا۔
اس وقت اس کو بس ایک ہی بات یاد تھی کہ میں حق پھیلانے اور انسانوں کو بچانے کے لیے آیا ہوں ۔۔۔۔ بے رحموں کی بستی کی طرف اس نے غم ناک نظروں سے دیکھا اور اپنے گھائل جسم کی طرف آنکھیں بند کرلیں۔ پھر درد بھرا جواب دیا:
’’ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو ان کی نسلوں میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہوں گے جو اللہ کی پرستش کریں گے۔‘‘
یہ تھا وہ اشاعت حق کا اتھاہ سوز جس کی برکت سے ایک گناہ آلود بستی عذاب کے لپیٹ میں آتے آتے بچ نکلی۔۔۔۔۔ آج پھر دنیا عذاب کی زد پر ہے۔۔۔۔ کاش خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس سوز درد کی سچی امین ثابت ہو۔۔۔۔۔ کم سے کم کوئی ایک سینہ اس سوز درد سے پھر ایک لالہ زار بن جائے۔

جب کوہ احد پر اہل ایمان کے ان قدموں میں ڈگمگاہٹ آئی جو ہمیشہ جمے رہنے کے لیے بنے تھے!
جب خود پہاڑ لرز اٹھا۔۔۔ جب کفر نےا سلام کے کھلے ہوئے سینے پر ناکام مشق ستم کے بعد اسلام کی پیٹھ میں خنجر اتار دینے کے لیے دست ستم بڑھایا تو گھن گرج کو کچل ڈالنے والی ایک آواز فضا میں لہرا رہی تھی۔ یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن نضر کی پرشوق آواز تھی ۔’’ ائے سعد کہاں چلے؟ کیا تم نہیں محسوس کرتے مجھے تو جنت کی خوشبو اسی احد کے پہاڑ سے آرہی ہے۔۔۔!‘‘
پھر انہوں نے جواب کا انتظار کہاں کیا ۔۔۔؟ تاب انتظار تھی کس کو۔۔۔؟ جنت کی خوشبو سے جو دل و دماغ بس گئے ہوں و دنیا کی عفونت میں کتنی دیر ٹک سکتے ہیں؟ دوسرے ہی لمحے حضرت انس (رض) موت کے لشکر پر خود ٹوٹ پڑے تھے۔
تلوار ان کے ہاتھ میں تھی اور جان ہتھیلی پر۔۔۔! اور نگاہ اس جنت پر جس کی محض خوشبو سونگھ کر وہ دنیا و مافیہا سے دامن جھٹک کر چل دئیے تھے۔ جب ان کی روح خدا سے جا ملی تو لوگوں نے ان کے گھائل جسم کو دیکھا۔۔ ایک ایسا جسم جس کو جسم سے زیادہ زخم کہنا موزوں ہوگا۔ ایک لاش جس کو ان کی بہن بھی فقط ہاتھ کے پوروں سے پہچان سکی تھی۔۔۔! ایک مجاہد‘ ایک شہید جس کے جسم پر اسی (80) گھاؤ تیر اور تلوار کے کیے گئے! اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر ! لا الٰہ الا اللہ۔۔۔ واللہ اکبر ! اللہ اکبر۔۔۔۔ وللہ الحمد!
’’اور مت کہہ دینا مردہ ان لوگوں کو جو راہ خدا میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔!! وہ تو جیتے جاگتے ہیں لیکن یہ سمجھنا تمہارے بس کی بات نہیں!‘‘
یہی زخموں سے پارہ پارہ بدن گواہ ہے کہ زندگی وہی زندگی ہے جس کو دنیا موت کہے جائے مگر خدا کہے کہ وہی تو زندگی ہے۔ لیکن ذرا ان مردوں کا دھیان تو کرو جن کو تمام عمر کبھی اس زندگی کی آرزو تک نہیں ہوتی ۔۔۔! اور کیسے ہیں ہم کہ حق پر جینے کے لیے بھی تیار نہیں ۔۔۔! وا حسرتا !

دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ذِکر حبیبﷺ سے پہلے دیارِ حبیبﷺ کا مذکور تقریب سخن کے طور پر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ عقیدت مند آنکھ خاک عرب کو جب محبت بھری نظروں سے دیکھتی ہے تو یثرب و بطحا کا ذرہ ذرہ آفتاب جہاں تاب بن کر چمکتا ہے۔ معلوم ہوتا کہ فرشتے نبیؐ کے مولد و مدفن پر نور کے روشن طبق لے کر اترتے ہیں۔ اور مکہ ومدینہ کی گلیاں ضیا پاشیوں سے بقعہ نور بن گئی ہیں۔ عرب جو روحانیوں کی نگاہ میں ہزار حسن اور لاکھ جلووں کی جنت گاہ ہے۔ چشم دنیا دار اس کے نظارہ ظاہرہ سے گھبرا اٹھتی ہے اور زبان پکار کر کہتی ہے کہ عرب تو سر تاسر صحرا ہےٗ جہاں تپتی ریت سے آتش زباں بگولے اٹھتے ہیں اور زہریلی ہوائیں جھکڑ بن کر چلتی ہیں۔ کوہستانی سلسلے جو دوسری جگہ ہمیشہ روح افزا اور نظر افروز ہوتے ہیںٗ یہاں چتیل پہاڑیاں بن کر رہ جاتے ہیں۔ پانی کی نایابی انسانی آبادی کے لیے مشکلات پید اکرتی ہے۔ لُو کی لپٹ میں کھجوروں کے سوا کوئی درخت سرسبز نہیں ہوتا۔ ہاں سمندر کے کنارے کچھ جاں پرور سبزی و شادابی دکھائی دیتی ہے جہاں آوار و سرگرداں قبائل ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی ہیں۔ ان کی کھیتی باڑی کی ساری امید باران رحمت پر ہے۔ وقت پر برس گیا تو جنگل میں منگل ٗ ورنہ انتظار ہی میں موسم ختم ہوجاتا ہے۔
ملک عرب محل وقوع کے لحاظ سے ایشیاء کا جنوبی خطہ ہے۔ شکل کے لحاظ سے مستطیلٗ جنوب میں زیادہ شمال میں کم۔اس کے مغرب میں بحیرہ قلزمٗ مشرق میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان، جنوب میں بحر ہند اور شمال میں ملک شام ہے۔ اس خطے کا مجموعی رقبہ تقریباً بارہ لاکھ مربع میل ہے۔
عرب دنیا سے تقریباً بالکل جدا اور اس کے ملکی حالات دوسرے ملکوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اس کے گرد پانی کے قلزم اور اندر ریت کے سمندر۔ اس میں نہ سیاح کے لئے کوئی دلچسپی ہے نہ فاتح کے لئے کوئی کشش۔ ضروریات زندگی کی کمیابی اور اوقات کی فراغت نے ہر عرب کو شاعر، شجاع اور شوریدہ سر عاشق بنا رکھا تھا۔مشاغل کی کمی کی وجہ سے ان وسیع فرصتوں کو گزارنے کا طریقہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ شاعر مضامین کے دریا سے موتی نکال نکال کر وقت گزارتا، بہادر خون کی ہولی کھیلنے میں عمر کھوتا اور عاشق کسی آہوئے صحرا کے خیال میں صبح سے شام کردیتا۔ دنیا کے بے کاروں کے لئے یہی اہم کام ہیں جو عمر کھو کر بھی انجام نہیں پاتے۔ علم جو اصلی جوہر ہے اس سے تمام عرب محروم تھا۔ تمام آبادی نوشت وخواند سے بے بہرہ تھی۔ ہاں شاعروں نے عربی زبان کے جوہر خوب چمکائے ۔ چونکہ قبیلے قبیلے میں شاعر موجود تھا اس لئے ہرکہ و مہ کی زبان ایسی منجھ گئی کہ اہل عرب فصاحت میں اوروں کو اپنا ہمسر نہ سمجھتے تھےٗ اور اپنی بلاغت کی بنا پر باقی دنیا کو "عجم” یعنی گنگ کہتے تھے۔
عرب کی شاعری کی کل کائنات فخر نسبٗ اظہار عشق اور اعلان جنگ تھی۔ ان کے تخیل کی پرواز قصائد، رجز اور غزل کی محدود دنیا سے بلند نہ ہوتی تھی۔ ان کا جذبہ خود ستائی اپنے یا اپنے قبیلے کے کارہائے نمایا ں بیان کرتے وقت شریفانہ جذبات کا اور پاک اخلاق کا حامل نہ ہوتا تھا بلکہ اکثر اوقات عورتوں کی عصمت بگاڑنےٗ ڈاکہ ڈالنے اور ظلم کرنے پر بھی فخر کیا جاتا تھا۔ عوام کی بدذوقی کا یہ عالم تھا کہ اخلاق ذمیمہ کی اس علانیہ تبلیغ پر بھی شاعر کی گرمی سخن کی داد دیتے اور واہ واہ کرتے تھے۔
بےشک عرب جنگجو اور شجاع تھے مگر جنگ وجدال کے محرکات عموماً رذیل احساسات ہوا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو قبائل میں وجہ جنگ موجود بھی نہ ہوتی تھی۔ مگر جنگ جاری رہتی تھی کبھی کھڑے کھڑے کسی ادنیٰ سی بات پر دودوست بگڑ جاتے اور تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور مدد کے لئے اپنے اپنے قبیلوں کو پکارتے تھے۔ جو سنتا تھا شمشیر برہنہ علم کئے شریک جنگ ہوجاتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ وجہ نزاع کیا ہے؟
مخلوق کی محبت خدا کی رحمت ہے مگر جب محبت کے بے پایانی کو محدود کر کے کسی فرد واحد میں مرکوز کردیا جائے اور اس حد بندی کی محرک شہوت ہو تو عصمت اور پاکبازی سر پیٹ لیتی ہے۔ عشق و عاشقی کو جب جوانی کی بے قیدی اور بے عنانی کے سپرد کردیا جائے تو درفتنہ باز ہوجاتا ہے اور اس کا ماحصل خسر الدنيا والاخرة ہوتا ہے۔ اہل عرب کے عشق کے عشق کی وارفتگیاں محبوب کے محاسن کی گرویدگی تک محدود نہ تھیں بلکہ یہ لوگ عورت کے التفات کے شجر ممنوعہ کے حاصل کرنے کے علانیہ حلف لیتے اور خواہشات نفسانی پر فخر کیا کرتے تھے۔ ہو نہ ہو ان عشاق کے معیار شرافت سے گرے ہوئے افعال و اقوال سے پناہ پاکر بعض ناعاقبت اندیشٗ خدانا ترس اور بزعم خویش خود دار افراد نے دختر کشی کی ابتدا کی ہوگی۔ کیونکہ اگر ایک طرف عشق یوں بے باک تھا تو دوسری طرف حسن بے حجاب ہر وقت سیاہ کاری کے دامن میں پناہ پانے کے لئے آمادہ تھا۔ میلوں میں بے نقاب عورتوں کی نگاہیں فتنے اٹھاتی تھیں اور ان کی مسکراہٹ بجلیاں گراتی تھی۔ غرض عشق شاعری اور شجاعت جو جذبہ عالیہ کے ساتھ مل کر قوموں کی قسمت کو بدل سکتے ہیںٗ ان میں موجود تو تھے مگر رذیل اخلاق سے مل کر ان کی تباہی کا باعث بن چکے تھے۔
اہل عرب ان عیوب کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی رکھتے تھے۔ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تلوار کا دھنی اکثر دل کا غنی ہوتا ہے اس لئے اہل عرب مہمان نواز اور سخی تھے۔ جس کسی کو اپنی پناہ میں لیتے اس کی جان و دل سے حفاظت کرتے تھے۔
اہل عرب کے اخلاق کسی آسمانی کتاب سے ماخوذ نہ تھے اور نہ ان کے اعمال کسی قانون پر موقوف تھے۔ ان کے اوضاع واطوار کو ملک کی آب وہوا نے بے ساختہ طورپر معین و مرتب کردیا تھا۔ ان کی عقیدت کا مرجع خدائے نادیدہ نہ تھا۔ بلکہ شرف انسانی مٹی کی مورتوں اور پتھر کے ترشے ہوئے بتوں کے قدموں میں سربسجود تھا۔ بت پرستی خدا پرستی کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ شیطان نے توحید پر دوطرف سے حملہ کیا ہے ایک تو محبت اور عقیدت کا حیلہ تلاش کیا۔ دوسرے گناہوں سے مضمحل اور چور چور روح کے کان میں افسونپھونکا کہ انسان فطرۃً کمزور ہے۔ نجات کی راہ کسی وسیلہ کے بغیر نہ ملے گی۔ چنانچہ گناہوں سے آلودہ لوگ نیک بندوں کی عظمت کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر ان نیک انسانوں کی محبت کی وسیع وادی میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ اس سے نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔
جس طرح نشہ شراب سے سر شار پیادہ سوار کا حکم رکھتا ٗ اسی طرح بادۂ عقیدت کا مخبور بھی بہت اونچی فضا میں اڑتا ہے۔ اس کی عقیدت کا مقام اتنا بلند اور وسعت اتنی ہمہ گیر ہوتی ہے کہ کل کائنات ایک ذرۂ خاک دکھائی دیتی ہے۔ عقیدت کی یہ ہمی گیری خدا کی بے پایاں عظمت کو بھی آغوش میں لینے کی سعی کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان جس سے عقیدت رکھتا ہے۔ پہلے تو وہ اس کو خدا کا مقرب اور حاشیہ نشین تصورکرتا ہے۔ کبھی خال کے مزاج میں دخیل خیال کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنے محبوب کو معبود سے بھی بلند پاتا ہے۔
دنیا ہمیشہ سے محبت اور عقیدت کی برپا کردہ تاریکیوں میں گھری رہی ہےٗ ہادیان برحق نورانی شریعتوں کے ساتھ دنیا میں آئے تاکہ پرستش غیر اللہ کی ضلالت سے انسان کو نکالیں۔ مگر عوام کو تو اپنے جذبۂ عقیدت کی تسکین کے لئے کوئی پیکرِ محسوس چاہیے۔ اس لئے بتوں کی مذمت کرنے والے نیک لوگ موت کے بعد خود بتوں کی طرح پوجے گئے۔ گناہگار انسان آلودگیوں کی وجہ سے خدا کی بخششوں سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اس لئے کسی واسطہ اور وسیلہ کے طفیل خدا کے غضب سے بچنا چاہتا ہے۔ مجبوراً خدا کا قیاس امراء اور سلاطین پر کرتا ہے۔ جو نبض شناس وزراء اور ہوشیار مشیروں کے ہاتھ میں موم کی ناک ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مشرک جہلاء کی بڑی دلیل یہی ہے کہ جب حکام کے دربار میں وسیلے کی سفارش کے بغیر کام نہیں نکلتا ٗ تو خدا کے حضور میں انسانی سفارشوں کے بغیر کیونکر بار مل سکتا ہے۔ دنیا میں بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جنہیں خدا کی ہستی سے انکار ہو۔ ہاں ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو خدا کے وجود کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان کے اقرار کا انداز کفر وانکار سے بدتر ہوتا ہے۔ کیونکہ عقل انسانی باری تعالیٰ کی صفات سمجھے میں ٹھوکر کھا جاتی ہے۔ چنانچہ مشرکین عرب میں بھی بہت تھوڑے بتوں کو خدا سمجھتے تھے۔ اکثر ان کو شفیع اور حصول نجات کا وسیلہ خیال کرتے تھے۔ اس لئے ان کی عقیدت مندی خدا کے خلاف تو ہزار پہلواتوں کی متحمل ہوسکتی تھی مگر وہ بتوں کے خلاف ایک لفظ کے روادار نہ تھے۔

گزارشِ احوال

گزارشِ احوال
اعترافِ عظمت کے لیے بھی باعظمت انسان ہونا ضروری ہے۔ میں نے مصر کی روایتی بڑھیا کی طرح یوسفؑ کی خریداری کا کئی بار عزم کیا۔ یعنی چاہا کہ ماہ عربؐ کی سیرت لکھوں لیکن مداح اور ممدوح میں ذرہ اور آفتاب کا فرق پاکر ہمت ہاردی۔
جب میں اس بار گرفتار ہو کر سنٹرل جیل میں آیا تو طبیعت نے تنہائی کا مشغلہ تلاش کرنا شروع کیا۔ ابھی کچھ فیصلہ نہ کرپایا تھا کہ میرا تبادلہ لاہور سے ملتان نیو سنٹرل جیل میں ہوگیا۔ چند ہی روز میں میری روح میں خوشگورا انقلاب پید اہوگیا۔ مجھے ایام اسیری یوں معلوم ہوئے گویا موسم بہار میں محروم محبت کے گھر میں محبوب اچانک آگیا ہو اور وہ استقبال کی خوشی اور دیدار کی مسرت میں اِدھر اُدھر پھر رہا ہو۔ انہی کیفیتوں میں ٗمیں نے جیل کے ساتھیوں مولانا حبیب الرحمٰن صاحب، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی صاحب اظہر اور مولانا عبد الرحمٰن نکودری کے ایماء پر اس کتاب کو شروع کیا ۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد میرا تبادلہ ملتان سے راولپنڈی جیل ہوگیا۔ قدرت کو منظور تھا کہ میں یہاں کے دوستوں کو چھوڑکر ایک غریب الوطن قیدی کا انیس تنہائی بنوں۔
راولپنڈی جیل میں ایک بم ساز اور بم بار بنگالی نوجوان ڈاکٹر بوس 57 سال کی لمبی قید کاٹ رہا تھا۔ وہ نوجوان تھا لیکن علم اور ایثار میں اپنا جواب آپ تھا ۔ وہ وطن عزیز کی غلامی کا ذکر جس جذبے سے کرتا تھا اس کی داد دینے کے لیے موزوں الفاظ نہیں ہیں۔ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات سے بڑا شغف تھا ۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر متعدد انگریزی کتابیں اس کے پاس ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ مجھے اس کے ذخیرہ کتب سے بہت ہی فائدہ پہنچا۔ اس کے علاوہ سیرت النبیؐ مصنفہ شبلی نعمانیؒ ہر وقت پیش نظر رہی۔ عربی عبارتوں کے تراجم اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
محبت ضابطوں کی پابند نہیں ہوتیٗ اور اکثر اوقات ادب واحترام کی حدود بے خبری میں نظر انداز ہوجاتی ہیں۔ میں نے شوق محبت کے باوجود انتخاب الفاظ میں احتیاط برتی ہے۔ اگر کہیں بے احتیاطی برتی گئی ہو تو اطلاع دی جائے تاکہ دوسری ایڈیشن میں تصحیح ہوسکے۔
افضل حق