عید الفطرکے موقع پر قادیانیوں کی مسلمانوں پر فائرنگ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جناب عید الفطر بھی گزر گئی اور رحمتوں برکتوں کا ماہ مبارک بھی رخصت ہوگیا اب اللہ ہی جانتے ہیں کہ آئندہ رمضان میں کون ہوگا اور کون اپنے رب کے حضور جاچکا ہوگا۔ نہ جانے یہ رمضان المبارک، تراویح، قرآن سے تعلق، اور نوافل ہم پر اور ہمارے معاشرے پر کتنا اثر انداز ہوں گے یا ہم ویسے کے ویسے ہی رہیں گے؟

بہرحال اللہ رب العزت نے ہمیں اس دفعہ 30 روزے پورے کرنے کا موقع دیا یعنی نیکیوں کا موسم بہار تیس دن تک ہم پر چھایا رہا جی ہاں یہ موسم بہار ہی تو ہے کہ جس میں نیکیوں کا اجر 70 گنا بڑھ جاتا ہے نوافل ٗ فرض کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور روزہ کا اجر تو بہت ہی بڑا ہے کیونکہ وہ تو اللہ رب العزت نے فرمادیا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اب پورا سال ایسا کوئی لمحہ نہیں آنے والا جس میں نوافل فرض کے درجے کو پہنچ جائیں اور ایک نیکی ستر کے براب ہو۔

ہمارے علاقے میں کثیر تعداد میں غیر مسلم رہتے ہیں زیادہ عیسائی اور تھوڑی تعداد میں قادیانی ہیں۔ دو عدد چرچ ہیں اور ایک قادیانیوں کی عبادت گاہ۔ ہوا کچھ یوں کہ عیدالفطر کی نماز پڑھنے جو لوگ جارہے تھے وہ ایک نیا ہی منظر دیکھ رہے تھے کہ قادیانیوں نے سارا راستہ رسیوں سے بلاک کیا ہوا ہے اور تھوڑا سا راستہ پیدل چلنے والوں کےلیے رکھا ہوا ہے اور آنے جانے والے مسلمانوں پر جملے بھی کسے جارہے ہیں۔ ایک موٹر سائکل پر سوار نوجوانوں کو انہوں نے روکا کہ یہاں سے یعنی (قادیانیوں کی عبادت گاہ کے سامنے سے ) اُتر کر پیدل جائیں تو انہوں نے کہا کہ پیدل جانا کوئی ضروری ہے ہمیں سوار ہوکر ہی جانے دیں اس معاملے پر تکرار شروع ہوگئی اتنے میں قریب کے ایک گھر کے باہر کھڑے ایک نوجوان نے آواز دی کہ انہیں جانے دو کیوں روک رہے ہو یہ نوجوان گاؤں کے ایک ملک کا بیٹا تھا۔ لیکن قادیانیوں نے اس نوجوان کی بات سنی ان سنی کردی وہ نوجوان خود آیا اور اس نے لڑکوں سے موٹرسائکل لے کر کہا کہ میں اس پر سوار ہوکر گزروں گا مجھے روک کر دکھاؤ لیکن جوں ہی اس نے موٹر سائکل اسٹارٹ کرنا چاہی ایک مرزائی نوجوان موٹر سائکل کی چابی نکالی تو بات تکرار سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور ایک مرزائی نے مسلمان نوجوان پر فائرنگ کردی لیکن اس کے ہاتھوں کی کپکاہٹ کی وجہ سے بچاؤ ہوگیا پھر جس پر فائرنگ کی گئی تھی وہ بھاگا گھر سے بندوق اٹھانے لیکن اس کے والد صاحب نے بندوق چھین کر اسے کمرے میں بند کردیا اورجن نوجوانوں کو روکا گیا تھا انہوں نے عید گاہ پہنچ کر سارے علاقے والوں کو یہ خبر سنا دی ۔

عید الفطر کی نماز کے بعد سینکڑوں مسلمان مرزائیوں کی عبادت گاہ کے باہر جمع ہوگئے کہ جنہوں نے فائرنگ کی ہے ان کو ہمارے حوالے کرو ایسے میں کسی نے پولیس کو بھی فون کردیا اور پولیس آگئی اس لئے علاقہ  کسی بڑے حادثے کاشکار ہونے سے بچ گیا۔ بعد میں پولیس کی نفری یہاں دو دن تک موجود رہی پولیس کی موجودگی میں بھی مرزائی تھوڑی دیر بعد اپنا اسلحہ لہراتے ہوئے مسلمانوں کو ڈرانے گلی میں آجاتےیہ ساری صورتحال گاؤں کی تھی کچھ لوگ تھانے بھی چلے گئے تھے مرزائیوں کے خلاف ایف آئی آر کتوانے لیکن وہاں پرچہ نہیں کاٹا جارہا تھا کسی نے ڈی آئی جی کو مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے فون کردیا تھا کہ فائرنگ مسلمانوں نے کی ہے ۔ لیکن جب گاؤں میں جو پولیس والے تعینات تھے انہوں نے فون کیا کہ یہاں مرزائی ابھی تک یہ حرکت کر رہے ہیں تو پھر ایف آئی آر کٹی۔

گاؤں میں پولیس والے بھی جن گھروں سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد مرزائی اسلحہ لے کر نکلتے تھے وہاں جاکر بیٹھ گئے تو سکون ہوگیا پانچ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹنے کے بعد مرزائیوں نے اب معافی مانگنا شروع کردی عید والے دن مغرب کے نماز کے بعد علاقے کے تمام مسلمان ہرمسلک اور برادری کے لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے چند لوگ متعین کیے جو مسلمانوں کی طرف سے مرزائیوں سے بات کریں گے اگلے دن 5 شرائط مرزائیوں سے منوانے کے بعد ان کو معافی دی گئی ۔

  • مرزائی گاؤں کے مسلمانوں کا راستہ بند نہیں کریں گے
  • مرزائی گاؤں میں اسلحہ نہیں لہرائیں گے اور اپنی عبادت گاہ پر بنا ہوا مورچہ ختم کردیں گے
  • گاؤں میں مرزائیوں نے کیبل پر اپنا جو مذہبی چینل چلا رکھا ہے اس کو بند کردیں گے
  • گاؤں میں مرزائی تبلیغ نہیں کریں گے
  • مرزائی اپنی حفاظت کی غرض سے بڑی عمر کے کسی فرد کو اسلحہ کے ساتھ متعین کرسکتے ہیں

ہماری عید تو جناب ایسی گزری ہے اب پتہ نہیں یہ معاملہ کب تک ٹھیک رہتا ہے ہمارے گاؤں میں عموماً ارائیں لوگ رہتے ہیں اور مرزائی بھی سارے آرائیں ہیں مسلمان آرائیں چوہدریوں اور مرزائیوں کی خاندانی رقابت اور دشمنی بھی ہے ایک دوسرے کے لوگوں کو قتل بھی کر رکھا ہے اب اس معاملے میں خطرہ یہ بھی تھا کہ کہیں چوہدری مذہب کے نام پر اپنی پرانی دشمنیوں کے بدلے نہ لینے شروع کردیں لیکن الحمدللہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

عرش رسا آوازیں

” ائے اللہ ! میں اپنی ناطاقتی اور بے چارگی اور لوگوں میں اپنی ہوا خیزی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں” ۔
"” آئے ارحم الراحمین! تو ہی ناتوانوں کی پرورش کرنے والا اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔
تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ۔۔؟ کیا کسی اجنبی بیگانے کے۔۔؟ جو مجھے دیکھ کر تیوری چڑھائے ۔۔ یا کسی دشمن کے؟ جس کو تونے مجھ پر غلبہ دے دیا ہو۔
خدایا۔۔۔۔! اگر تو مجھ سے خفا نہیں ہے تو پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں ہے۔
تیری حفاظت میرے لیے بس کافی ہے۔ میں طالب پناہ ہوں تیرے رخ کے اس نور سے جس سے تمام ظلمتیں کافور ہو گئیں ۔۔۔ جس سے دونوں جہاں کی بگڑی بن جاتی ہے ۔ میں طالب پناہ ہوں اس بات سے کہ مجھ پر تیرا عتاب ہو۔۔۔ یا تو مجھ سے روٹھ جائے۔
’’ تاوقت یہ کہ تو خوش نہ ہوجائے تجھے منائے جانا ناگزیر ہے‘‘۔
یہ کون کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟
کس سے کہہ رہا ہے۔۔۔؟
کہاں کہہ رہا ہے۔۔۔؟
یہ خدا کے درپر خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل دہلا دینے والی پکار ہے جو آج سے تقریبآ ڈیڑھ ہزار سال پہلے طائف کی کوہستان وادیوں میں گونجی تھی اور آج صفحہ قرطاس پر اترتی ہے تو جیسے قلم کا جگر کانپ کانپ جاتا ہے۔ یہ پکار جب خدائے سمیع و رحیم نے سنی ہوگی تو رحمت و غیرت کا کیا عالم ہوا ہوگا ۔۔۔ خدا گواہ ہے کہ کوئی اس کا صحیح تصور تک نہیں کرسکتا۔ تاریخ اتنا ضرور بتاتی ہے کہ ادھر یہ فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ترین ہونٹوں سے جدا ہوئی تھی اور ادھر خدا کا جواب آپہنچا تھا ۔۔۔ فضائے کائنات کو چیرتے ہوئے دوعظیم فرشتے فرش خاک پر آکھڑے ہوئے۔ ان میں ایک خود حضرت جبرئیل (ع( تھے اور دوسرا وہ طاقتور فرشتہ جس کے شانوں پر خدا نے پہاڑوں کے نظم و نسق کا بوجھ رکھا ہے۔
’’ السلام علیکم یا رسول اللہ! کمال ادب کے ساتھ جبرئیل امین (ع( نے کہا تھا ’’خدا نے وہ ساری گفتگو بہ نفس نفیس سن لی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے مابین ہوئی۔۔۔ اور اس نے اس فرشتے کو خدمت میں حاضر کیا ہے جس کے سپرد کوہستانوں کا نظام ہے کہ جو حکم آپ چاہیں اس کو دیں‘‘۔

بے رحم انسانوں نے جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا تھا خدائے ارحم الراحمین نے اس کے قدموں پر پہاڑوں کو لاڈالا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارحم الراحمین کی اس بندہ نوازی کو سنا اور ابھی شکر نعمت ہی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ فی الفور دوسرا فرشتہ آگے بڑھا۔
السلام علیکم یا رسول اللہ! وہ عرض کر رہا تھا’’ میں ہی وہ فرشتہ ہوں جو مالک کائنات کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل پر مامور ہوا ہے، اگر ارشاد ہو تو طائف کے دونوں محاذوں کے پہاڑوں کو حرکت دوں اور ایک دوسرے سے اس طرح ٹکرا دوں کہ اس سرپھری آبادی کی کچلی ہوئی لاشوں پر رونے والا بھی کوئی نہ ہو۔
کیسا عجیب و غریب وقت تھا۔۔۔! ائے دل والو ! ذرا سوچو تو سہی ! ایک طرف وہ سنگ دل آبادی ہے جس نے ایک انتہائی رحم کھانے والے کو پتھروں سے مارا ہے۔ اس کا انتہائی پاکیزہ اور بے لوث پیغام سن کر وحشیانہ تمسخر سے تالیاں پیٹیں اور بغلیں بجائی ہیں، فقرے کسے اور پتھراؤ کیا ہے۔ دوسری طرف پہاڑوں کی باگ ڈور خدا نے اپنے مظلوم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی ہے اور پہاڑوں کے نظام پر مامور دیو پیکر فرشتہ ایک اشارے پر اس سفاک بستی کے جفا طرازوں کو سرمہ بناڈالنے کے لیے ہمہ تن اشارہ چشم ابرو کا منتظر ہے اور ان دونوں لرزہ خیز مناظر کے درمیان خود وہی رحم؎ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم حائل ہے جس کے گھائل پیروں سے خون کے فوارے پھوٹ نکلے ہیں ۔۔۔ پاپوش لہو سے چھلک رہے ہیں اور جس کی مظلومیت کے قدم فرط ضعف سے لڑکھڑانے لگے ہیں‘ لیکن جوں ہی اس کو محسوس ہوا کہ ظالموں کے حق میں خدا عذاب کا فیصلہ کیے چاہتا ہے۔ وہ اپنے ہر زخم کی کسک کو بھول گیا۔
اس وقت اس کو بس ایک ہی بات یاد تھی کہ میں حق پھیلانے اور انسانوں کو بچانے کے لیے آیا ہوں ۔۔۔۔ بے رحموں کی بستی کی طرف اس نے غم ناک نظروں سے دیکھا اور اپنے گھائل جسم کی طرف آنکھیں بند کرلیں۔ پھر درد بھرا جواب دیا:
’’ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو ان کی نسلوں میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہوں گے جو اللہ کی پرستش کریں گے۔‘‘
یہ تھا وہ اشاعت حق کا اتھاہ سوز جس کی برکت سے ایک گناہ آلود بستی عذاب کے لپیٹ میں آتے آتے بچ نکلی۔۔۔۔۔ آج پھر دنیا عذاب کی زد پر ہے۔۔۔۔ کاش خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس سوز درد کی سچی امین ثابت ہو۔۔۔۔۔ کم سے کم کوئی ایک سینہ اس سوز درد سے پھر ایک لالہ زار بن جائے۔

جب کوہ احد پر اہل ایمان کے ان قدموں میں ڈگمگاہٹ آئی جو ہمیشہ جمے رہنے کے لیے بنے تھے!
جب خود پہاڑ لرز اٹھا۔۔۔ جب کفر نےا سلام کے کھلے ہوئے سینے پر ناکام مشق ستم کے بعد اسلام کی پیٹھ میں خنجر اتار دینے کے لیے دست ستم بڑھایا تو گھن گرج کو کچل ڈالنے والی ایک آواز فضا میں لہرا رہی تھی۔ یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن نضر کی پرشوق آواز تھی ۔’’ ائے سعد کہاں چلے؟ کیا تم نہیں محسوس کرتے مجھے تو جنت کی خوشبو اسی احد کے پہاڑ سے آرہی ہے۔۔۔!‘‘
پھر انہوں نے جواب کا انتظار کہاں کیا ۔۔۔؟ تاب انتظار تھی کس کو۔۔۔؟ جنت کی خوشبو سے جو دل و دماغ بس گئے ہوں و دنیا کی عفونت میں کتنی دیر ٹک سکتے ہیں؟ دوسرے ہی لمحے حضرت انس (رض) موت کے لشکر پر خود ٹوٹ پڑے تھے۔
تلوار ان کے ہاتھ میں تھی اور جان ہتھیلی پر۔۔۔! اور نگاہ اس جنت پر جس کی محض خوشبو سونگھ کر وہ دنیا و مافیہا سے دامن جھٹک کر چل دئیے تھے۔ جب ان کی روح خدا سے جا ملی تو لوگوں نے ان کے گھائل جسم کو دیکھا۔۔ ایک ایسا جسم جس کو جسم سے زیادہ زخم کہنا موزوں ہوگا۔ ایک لاش جس کو ان کی بہن بھی فقط ہاتھ کے پوروں سے پہچان سکی تھی۔۔۔! ایک مجاہد‘ ایک شہید جس کے جسم پر اسی (80) گھاؤ تیر اور تلوار کے کیے گئے! اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر ! لا الٰہ الا اللہ۔۔۔ واللہ اکبر ! اللہ اکبر۔۔۔۔ وللہ الحمد!
’’اور مت کہہ دینا مردہ ان لوگوں کو جو راہ خدا میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔!! وہ تو جیتے جاگتے ہیں لیکن یہ سمجھنا تمہارے بس کی بات نہیں!‘‘
یہی زخموں سے پارہ پارہ بدن گواہ ہے کہ زندگی وہی زندگی ہے جس کو دنیا موت کہے جائے مگر خدا کہے کہ وہی تو زندگی ہے۔ لیکن ذرا ان مردوں کا دھیان تو کرو جن کو تمام عمر کبھی اس زندگی کی آرزو تک نہیں ہوتی ۔۔۔! اور کیسے ہیں ہم کہ حق پر جینے کے لیے بھی تیار نہیں ۔۔۔! وا حسرتا !

وال پیپرز

ربیع الاول کے تناظر میں وال پیپر

muhammad_wallpaper

wallpaper

wallpaper

وال پیپر

کلمہ

دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ذِکر حبیبﷺ سے پہلے دیارِ حبیبﷺ کا مذکور تقریب سخن کے طور پر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ عقیدت مند آنکھ خاک عرب کو جب محبت بھری نظروں سے دیکھتی ہے تو یثرب و بطحا کا ذرہ ذرہ آفتاب جہاں تاب بن کر چمکتا ہے۔ معلوم ہوتا کہ فرشتے نبیؐ کے مولد و مدفن پر نور کے روشن طبق لے کر اترتے ہیں۔ اور مکہ ومدینہ کی گلیاں ضیا پاشیوں سے بقعہ نور بن گئی ہیں۔ عرب جو روحانیوں کی نگاہ میں ہزار حسن اور لاکھ جلووں کی جنت گاہ ہے۔ چشم دنیا دار اس کے نظارہ ظاہرہ سے گھبرا اٹھتی ہے اور زبان پکار کر کہتی ہے کہ عرب تو سر تاسر صحرا ہےٗ جہاں تپتی ریت سے آتش زباں بگولے اٹھتے ہیں اور زہریلی ہوائیں جھکڑ بن کر چلتی ہیں۔ کوہستانی سلسلے جو دوسری جگہ ہمیشہ روح افزا اور نظر افروز ہوتے ہیںٗ یہاں چتیل پہاڑیاں بن کر رہ جاتے ہیں۔ پانی کی نایابی انسانی آبادی کے لیے مشکلات پید اکرتی ہے۔ لُو کی لپٹ میں کھجوروں کے سوا کوئی درخت سرسبز نہیں ہوتا۔ ہاں سمندر کے کنارے کچھ جاں پرور سبزی و شادابی دکھائی دیتی ہے جہاں آوار و سرگرداں قبائل ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی ہیں۔ ان کی کھیتی باڑی کی ساری امید باران رحمت پر ہے۔ وقت پر برس گیا تو جنگل میں منگل ٗ ورنہ انتظار ہی میں موسم ختم ہوجاتا ہے۔
ملک عرب محل وقوع کے لحاظ سے ایشیاء کا جنوبی خطہ ہے۔ شکل کے لحاظ سے مستطیلٗ جنوب میں زیادہ شمال میں کم۔اس کے مغرب میں بحیرہ قلزمٗ مشرق میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان، جنوب میں بحر ہند اور شمال میں ملک شام ہے۔ اس خطے کا مجموعی رقبہ تقریباً بارہ لاکھ مربع میل ہے۔
عرب دنیا سے تقریباً بالکل جدا اور اس کے ملکی حالات دوسرے ملکوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اس کے گرد پانی کے قلزم اور اندر ریت کے سمندر۔ اس میں نہ سیاح کے لئے کوئی دلچسپی ہے نہ فاتح کے لئے کوئی کشش۔ ضروریات زندگی کی کمیابی اور اوقات کی فراغت نے ہر عرب کو شاعر، شجاع اور شوریدہ سر عاشق بنا رکھا تھا۔مشاغل کی کمی کی وجہ سے ان وسیع فرصتوں کو گزارنے کا طریقہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ شاعر مضامین کے دریا سے موتی نکال نکال کر وقت گزارتا، بہادر خون کی ہولی کھیلنے میں عمر کھوتا اور عاشق کسی آہوئے صحرا کے خیال میں صبح سے شام کردیتا۔ دنیا کے بے کاروں کے لئے یہی اہم کام ہیں جو عمر کھو کر بھی انجام نہیں پاتے۔ علم جو اصلی جوہر ہے اس سے تمام عرب محروم تھا۔ تمام آبادی نوشت وخواند سے بے بہرہ تھی۔ ہاں شاعروں نے عربی زبان کے جوہر خوب چمکائے ۔ چونکہ قبیلے قبیلے میں شاعر موجود تھا اس لئے ہرکہ و مہ کی زبان ایسی منجھ گئی کہ اہل عرب فصاحت میں اوروں کو اپنا ہمسر نہ سمجھتے تھےٗ اور اپنی بلاغت کی بنا پر باقی دنیا کو "عجم” یعنی گنگ کہتے تھے۔
عرب کی شاعری کی کل کائنات فخر نسبٗ اظہار عشق اور اعلان جنگ تھی۔ ان کے تخیل کی پرواز قصائد، رجز اور غزل کی محدود دنیا سے بلند نہ ہوتی تھی۔ ان کا جذبہ خود ستائی اپنے یا اپنے قبیلے کے کارہائے نمایا ں بیان کرتے وقت شریفانہ جذبات کا اور پاک اخلاق کا حامل نہ ہوتا تھا بلکہ اکثر اوقات عورتوں کی عصمت بگاڑنےٗ ڈاکہ ڈالنے اور ظلم کرنے پر بھی فخر کیا جاتا تھا۔ عوام کی بدذوقی کا یہ عالم تھا کہ اخلاق ذمیمہ کی اس علانیہ تبلیغ پر بھی شاعر کی گرمی سخن کی داد دیتے اور واہ واہ کرتے تھے۔
بےشک عرب جنگجو اور شجاع تھے مگر جنگ وجدال کے محرکات عموماً رذیل احساسات ہوا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو قبائل میں وجہ جنگ موجود بھی نہ ہوتی تھی۔ مگر جنگ جاری رہتی تھی کبھی کھڑے کھڑے کسی ادنیٰ سی بات پر دودوست بگڑ جاتے اور تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور مدد کے لئے اپنے اپنے قبیلوں کو پکارتے تھے۔ جو سنتا تھا شمشیر برہنہ علم کئے شریک جنگ ہوجاتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ وجہ نزاع کیا ہے؟
مخلوق کی محبت خدا کی رحمت ہے مگر جب محبت کے بے پایانی کو محدود کر کے کسی فرد واحد میں مرکوز کردیا جائے اور اس حد بندی کی محرک شہوت ہو تو عصمت اور پاکبازی سر پیٹ لیتی ہے۔ عشق و عاشقی کو جب جوانی کی بے قیدی اور بے عنانی کے سپرد کردیا جائے تو درفتنہ باز ہوجاتا ہے اور اس کا ماحصل خسر الدنيا والاخرة ہوتا ہے۔ اہل عرب کے عشق کے عشق کی وارفتگیاں محبوب کے محاسن کی گرویدگی تک محدود نہ تھیں بلکہ یہ لوگ عورت کے التفات کے شجر ممنوعہ کے حاصل کرنے کے علانیہ حلف لیتے اور خواہشات نفسانی پر فخر کیا کرتے تھے۔ ہو نہ ہو ان عشاق کے معیار شرافت سے گرے ہوئے افعال و اقوال سے پناہ پاکر بعض ناعاقبت اندیشٗ خدانا ترس اور بزعم خویش خود دار افراد نے دختر کشی کی ابتدا کی ہوگی۔ کیونکہ اگر ایک طرف عشق یوں بے باک تھا تو دوسری طرف حسن بے حجاب ہر وقت سیاہ کاری کے دامن میں پناہ پانے کے لئے آمادہ تھا۔ میلوں میں بے نقاب عورتوں کی نگاہیں فتنے اٹھاتی تھیں اور ان کی مسکراہٹ بجلیاں گراتی تھی۔ غرض عشق شاعری اور شجاعت جو جذبہ عالیہ کے ساتھ مل کر قوموں کی قسمت کو بدل سکتے ہیںٗ ان میں موجود تو تھے مگر رذیل اخلاق سے مل کر ان کی تباہی کا باعث بن چکے تھے۔
اہل عرب ان عیوب کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی رکھتے تھے۔ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تلوار کا دھنی اکثر دل کا غنی ہوتا ہے اس لئے اہل عرب مہمان نواز اور سخی تھے۔ جس کسی کو اپنی پناہ میں لیتے اس کی جان و دل سے حفاظت کرتے تھے۔
اہل عرب کے اخلاق کسی آسمانی کتاب سے ماخوذ نہ تھے اور نہ ان کے اعمال کسی قانون پر موقوف تھے۔ ان کے اوضاع واطوار کو ملک کی آب وہوا نے بے ساختہ طورپر معین و مرتب کردیا تھا۔ ان کی عقیدت کا مرجع خدائے نادیدہ نہ تھا۔ بلکہ شرف انسانی مٹی کی مورتوں اور پتھر کے ترشے ہوئے بتوں کے قدموں میں سربسجود تھا۔ بت پرستی خدا پرستی کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ شیطان نے توحید پر دوطرف سے حملہ کیا ہے ایک تو محبت اور عقیدت کا حیلہ تلاش کیا۔ دوسرے گناہوں سے مضمحل اور چور چور روح کے کان میں افسونپھونکا کہ انسان فطرۃً کمزور ہے۔ نجات کی راہ کسی وسیلہ کے بغیر نہ ملے گی۔ چنانچہ گناہوں سے آلودہ لوگ نیک بندوں کی عظمت کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر ان نیک انسانوں کی محبت کی وسیع وادی میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ اس سے نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔
جس طرح نشہ شراب سے سر شار پیادہ سوار کا حکم رکھتا ٗ اسی طرح بادۂ عقیدت کا مخبور بھی بہت اونچی فضا میں اڑتا ہے۔ اس کی عقیدت کا مقام اتنا بلند اور وسعت اتنی ہمہ گیر ہوتی ہے کہ کل کائنات ایک ذرۂ خاک دکھائی دیتی ہے۔ عقیدت کی یہ ہمی گیری خدا کی بے پایاں عظمت کو بھی آغوش میں لینے کی سعی کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان جس سے عقیدت رکھتا ہے۔ پہلے تو وہ اس کو خدا کا مقرب اور حاشیہ نشین تصورکرتا ہے۔ کبھی خال کے مزاج میں دخیل خیال کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنے محبوب کو معبود سے بھی بلند پاتا ہے۔
دنیا ہمیشہ سے محبت اور عقیدت کی برپا کردہ تاریکیوں میں گھری رہی ہےٗ ہادیان برحق نورانی شریعتوں کے ساتھ دنیا میں آئے تاکہ پرستش غیر اللہ کی ضلالت سے انسان کو نکالیں۔ مگر عوام کو تو اپنے جذبۂ عقیدت کی تسکین کے لئے کوئی پیکرِ محسوس چاہیے۔ اس لئے بتوں کی مذمت کرنے والے نیک لوگ موت کے بعد خود بتوں کی طرح پوجے گئے۔ گناہگار انسان آلودگیوں کی وجہ سے خدا کی بخششوں سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اس لئے کسی واسطہ اور وسیلہ کے طفیل خدا کے غضب سے بچنا چاہتا ہے۔ مجبوراً خدا کا قیاس امراء اور سلاطین پر کرتا ہے۔ جو نبض شناس وزراء اور ہوشیار مشیروں کے ہاتھ میں موم کی ناک ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مشرک جہلاء کی بڑی دلیل یہی ہے کہ جب حکام کے دربار میں وسیلے کی سفارش کے بغیر کام نہیں نکلتا ٗ تو خدا کے حضور میں انسانی سفارشوں کے بغیر کیونکر بار مل سکتا ہے۔ دنیا میں بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جنہیں خدا کی ہستی سے انکار ہو۔ ہاں ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو خدا کے وجود کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان کے اقرار کا انداز کفر وانکار سے بدتر ہوتا ہے۔ کیونکہ عقل انسانی باری تعالیٰ کی صفات سمجھے میں ٹھوکر کھا جاتی ہے۔ چنانچہ مشرکین عرب میں بھی بہت تھوڑے بتوں کو خدا سمجھتے تھے۔ اکثر ان کو شفیع اور حصول نجات کا وسیلہ خیال کرتے تھے۔ اس لئے ان کی عقیدت مندی خدا کے خلاف تو ہزار پہلواتوں کی متحمل ہوسکتی تھی مگر وہ بتوں کے خلاف ایک لفظ کے روادار نہ تھے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین

اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے

مجھے  100 فیصد سے بھی زیادہ اس بات کے سچ ہونے کا یقین ہے غیبی بھی ہے اور آنکھوں دیکھا بھی اب دیکھیے نا میں ایک محفل میلاد میں شریک ہونے کے لیے آیا ہوں ۔ہم نے ساری محفل بڑی دلجمعی سے سنی ہے بڑے اچھے اور نیک لوگ ہیں جو ایسی محفلوں کا انعقاد کرتے ہیں اگرچہ اس معاشرے میں کچھ لوگ ان کو برا بھلا بھی کہتے ہیں کہ یہ بدعتی ہیں ، گمراہ ہیں سنت کے خلاف کرتے ہیں میرے محلے میں رانا صاحب  بھی یہی کچھ کہتے ہیں ۔ محفل کے اختتام پر سلام پڑھا جائے گا اس کے بعد  لنگر یا تبرک ملے گا  ۔

اصل میں ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جوبہت کم اچھا کھانا کھاتے ہیں اور بعض اوقات تو بھوکے یا ٹکڑے کھا کر بھی گزارہ کرنا پڑتا ہے ہمیں ایسی محفلیں بڑی ہی اچھی لگتی ہیں جہاں ایسے لوگوں  کو کچھ کھانے پینے کو مل جاتا ہے یہ ہمارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت ہے جو ان کے بعد بھی جاری ہے

اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد ۔

ہما رے ابو کو قتل  ہوئے 4 سال ہوگئے تھے بہت اچھے تھےابو ۔ ہمارے ابو جی کے دفتر میں ڈاکو آگئے تھے باورچی کے ساتھ ساتھ چوکیداری بھی کرتے تھے ا ن ڈاکوؤں نے ہمارے ابو ہم سے چھین لئے ہمارے گھر میں تو ابو کے آنے سے رونق آجاتی تھی ہر چہر ہ خوش ہوجاتا ابو کو دور سے آتے ہوئے دیکھتے تو بچوں کی طرح سب ایک دوسرے کو بتا تے اور چھت پر سے کھڑے ہوکر گلی میں دیکھتے کہ وہ ابو آرہے ہیں ۔ ہم نے تو کبھی ابو سے بچھڑ جانے کا سوچا بھی نہ تھا بہت محبت کرتے تھے اور ہم سب کے دوست تھے لوگوں کو رشک آتا تھا ہم سب کی محبت پر ۔ ہمیں انہوں نے کھانا سکھا یا ، اٹھنا بیٹھنا اور چلنا سکھایا ہاتھ پکڑ کر چلاتے سڑک پر کیسے چلنا ہے ، بھڑ میں کیا کرنا ہے،   دوسروں سے کیسے ملنا ہے، ہمیں پڑھنا اور لکھنا بھی سکھایا اور سب سے بڑھ کر ہمیں دوسروں سے محبت کرنا سکھایا۔ ابوجی  کے ہوتے ہوئے ہمیں تکلیف کا احساس نہ ہوا تھا ہم پر آنے والی تکلیفوں کو وہ آگے بڑھ کے لے لیتے تھے ان کے حصے میں جو کھانا آتا تھا وہ گھر لے آتے تھے وہ کھانا اچھا ہوتا تھا اس بہانے ہمیں عیاشی کا موقع ملتا رہتا تھا۔  اب ابو جی کے بعد ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے سر پر چھت ہی نہیں ہے ابو جی سے ہم سب بہت پیار کرتے تھے ۔ اب  ابو نہیں ہیں میری آنکھوں کے سامنے ہمارے دکھ اور تکالیف ہمیں خود ہی برداشت کرنے ہیں ہمارے خوشیاں بھی کیا خوشیاں ہیں بس بجھی بجھی سی خوشیاں جیسے اچانک ان خوشیوں کا سوئچ کوئی آف کردے گا۔

ہم نے بچپن سے پڑھا تھا کہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید والے دن ایک یتیم بچے کو روتے ہوئے دیکھا اس کے پاس آئے اسے پیا ر کیا اسے کہا کہ آج سے محمد تمہارے باپ اور عائشہ تمہاری ماں ہیں تو مجھے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت بہت بڑھ گئی کیونکہ میرے ابو کے بعد کوئی ایک بھی اس دنیا میں ایسا نہیں ملا جس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا ہو اور مجھے اپنے بٹھا کر محبت سے میری بات سنی ہو میری مشکل میں مدد کی ہو نہیں ایسا کوئی نہیں اس ملک میں کروڑوں مسلمان ہیں ایک دوسرے اس بات پر لڑ پڑتے ہیں کہ ہم اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں  لیکن انہوں نے جس طرح لوگوں سے حسن سلوک کیا اس کا شائد انہیں پتہ ہی نہیں ۔لیکن میں نے تو عہد کیا ہے کہ میں ضرور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا بننے کی کوشش کروں گا آپ سب میرے لیے دعا کرنا کہ میں کبھی کسی یتیم کو نہ دھتکاروں اپنے پر بیتنے والی یاد رکھوں ۔ اپنے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہر ضرورت مند کی ضرورت عزت سے اور جذبۂ تشکر سے پوری کروں ۔ آخر اس دنیا میں کوئی تو ایسا بننے کی کوشش کرے نا جس سے سب خیر حاصل کریں۔

مجھے اپنی ایک اور کیفیت یاد آئی وہ بھی میں آپ سے بیان کرنا چاہوں گا ۔ واللہ آپ میرے لیے ضرورت ہدایت کی دعاء کرنا ۔

جب شیطان مجھے گمراہ کر کے مجھ سے کوئی گناہ کروا لیتا ہے تو اللہ رب العزت کی رحمت سے نادم ہوتا ہوں  اللہ سے معافی مانگتا ہوں لیکن دل میں تسلی نہیں ہوتی خیال آتا ہے کہ کوئی ایسا ہو جس سے اپنا حالِ دل بیان کروں سب کچھ کہہ دوں اسے اور وہ  مجھے اللہ کی رحمت کی امید دلا کر اس کی طرف آنے کا راستہ بتائے ۔  میرے لیے دعاء کرے کہ ائے میرے رب اپنے اس بندے کی خطاؤں سے دگزر کر اور اسے بخش دے  لیکن مجھے کوئی ایسا بندہ نہیں ملتا جسے میں یہ کہوں تو وہ میرا پردہ بھی رکھے اور میرے لیے اللہ سے دعاء بھی مانگے مجھے حوصلہ بھی دے اللہ کی رحمت کی امید بھی دلا ئے ۔ ایسا تو صرف میرا روحانی باپ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نظر آتے ہیں پھر بڑا یاد کرتا ہوں  انہیں میں نے چند دن پہلے اپنے آقا کی ایک حدیث سنی ہے اس کا مفہوم یہ ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ تمہارے لیے ایک گنا اجر ہے اور بعد والوں کے لیے 7 گنا اجر ہے ۔ کہا! کہ تم لوگ مجھے دیکھ کر ایمان لائے ہوں لیکن بعد والوں کےلیے تو مجھ پر ایمان بھی غیب پر ایمان ہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ اللہ سے ایمان کی سلامتی ، 7 گنا اجر والے اور شکر گزار لوگوں میں شمولیت مانگتا ہوں ۔

تو میرے دوستو ! میری تو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھوڑی  سی ہے اس کو بڑھانے کا خواہشمند ہوں  میری مدد کریں اور میرے لیے دعا ء بھی کریں۔

شائد یہ تحریر بے ڈھنگی ہو لیکن تصنع کے بغیر تحریرمیں کچھ خامی تو ہوگی نا  ۔ نہ جانے کیوں بڑے دنوں سے  دل چاہ رہا تھا کہ آپ لوگ جو میرا بلاگ پڑھتے ہیں ان سے اپنے دل کی باتیں کروں پھر  جذبات میں یہ سب کچھ ٹائپ کر گیا اگر کسی کو اس میں کچھ اچھا لگے تو وہ خود بہت اچھا ہے ۔

میں جَلوں یا گَڑوں؟

ہمارے برادر اِسلامی ملک ملائیشیا سے پام کا تیل‘ مہاتیر محمد کے حُسنِ کارکردگی کی مثالیں اور جدید برقی آلات تو آیا ہی کرتے تھے۔ اب ایک دِلچسپ خبر بھی آگئی ہے۔ خبر کے مطابق پان ملائیشیا اِسلامک پارٹی (PAS) نے اپنے انتخابی امیدواروں سے ایک حلف لیا ہے۔حلف کی رُو سے اگر جماعت کا کوئی رُکن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی جماعتی وفاداریاں تبدیل کرے گا تو اُ س کی بیوی کو طلاق پڑ جائے گی۔ ”پاس“ کے کارکنان کی بیویوں پر مذکورہ اورمشروط طلاقِ حلفی تو بعد میں پڑے گی۔ یہ افتاد پڑنے سے قبل ہی ملائیشیا کے سیاسی حلقوں میں ایک کھلبلی پڑگئی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیںبھی اِس حلف کوسخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اور ملائیشین حکومت کی ایک خاتون وزیر محترمہ شریزت جلیل نے تو اِس حلف ہی کی شدید مذمّت کر ڈالی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کا غوغا سمجھ میں آتاہے کہ اِس حلف کے باعث اُنھیں حسبِ ضرورت بلکہ حسبِ حاجت اِسلامی لوٹے میسر نہ آسکیں گے۔ کیوں کہ جب بھی اِسلامک پارٹی کا کوئی رُکن لوٹا بننے کا خیال کرے گا‘ اُس کے اندر سے ایک حلف یافتہ نقیب آواز لگائے گا: ”با اَدب…. با ملاحظہ…. ہوشیار…. نکاح رُوبرو!“ مگر اﷲ جانے ”پاس“ کے ارکان کے اُٹھائے ہوئے حلف سے خاتون وزیر کو کیا خطرہ لاحق ہوگیا ہی؟ حکومتی جماعت کو انکوائری کروانی چاہیے۔ ٭٭٭ ہمارا خیال ہے کہ پان ملائیشیا اِسلامک پارٹی نے یہ حلف صرف اپنے منتخب ارکان کی جماعتی وفاداریاں محفوظ رکھنے کے لیے نہیں لیا ہے۔ اپنے منتخب ارکان کو اُ ن کی بیویوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی لیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہی…. بلکہ آپ نے بھی دیکھا ہوگا…. دُنیا بھر میں اِسلامی جماعتوں کے اکثر ارکان کا وتیرہ ہے کہ منتخب ہوگئے تو دِن کو دِن سمجھا نہ رات کو رات۔ اپنے تمام اوقات اپنی جماعت کے سپر د کردیے۔ہمہ وقت خدمتِ خلق کے لیے وقف ہوگئے۔اِن ہمہ وقتی مصروفیات کے باعث اہلِ خانہ کے لیی…. دِن نکمّے اور راتیں کالیاں ہوتی گئیں….نتیجہ اِس کا یہ نکلا کہ…. ہوتے ہوتے مشتعل گھر والیاں ہوتی گئیں۔ آپ کو بھی معلوم ہی ہوگا کہ اشتعال میں کیا کیا ہوجاتاہے۔تو ایسے موقع پر مذکورہ حلف ایک ”بلٹ پر وف جیکٹ“ کا کام کرے گا۔ صاحب بڑی سے بڑی بات سُن کر بڑے سکون سے کہیں گی: ”غصہ نہ کرو بیگم…. اگرتُمھیں میری جماعتی سرگرمیاں اچھی نہیں لگتیں تو میں ابھی اسمبلی جاکر پارٹی بدل لیتا ہوں“۔ یہ سنتے ہی بیگم کا دِل دھک سے رہ جائے گا۔وہ پینترابدل کر جھٹ سے کہیں گی: ”نہیں نہیں‘ میاں!تُم بھی اچھے اورتُمھاری جماعتی سرگرمیاں بھی اچھی۔بس نصیبوں جلی تو میں ہوں جو….“ اِس فرضی ازدواجی مکالمے پر ہمیں ایک قصہ یاد آگیا۔ ٭٭٭ مگر قصہ سننے سے پہلے ہماری کچھ بقراطیاں سُن لیجیے۔ مسلم ممالک میں جب تک مغرب کے زیرِ اثر جمہوری معاشرہ نہیں پایا جاتاتھا‘ تب تک وفاداریاں بدلنے کا چلن بھی عام نہیں تھا ۔ ہمارے یہاں لوگ بیگمات کے معاملہ میں بھی اور جماعت کے معاملہ میں بھی ”یک درگیر و محکم گیر“ کے قائل تھے۔ (ایک ہی در کو تھامواور مضبوطی سے تھامو)۔مغربی معاشرے کے اثرات پڑنے سے پہلے لوگ بات بات پراور باربار بیگمات بدلتے نہ جماعت ۔ مسلمانوں کی جماعت کاکام تعمیر سیرت اور کردارسازی ہے۔ کردار کی طاقت سے افراد کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے‘ اور طبقات کی بھی ۔ گاہے ایک ہی باکردار شخص کسی حکمران یا تمام حکمراں طبقات کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتاہے۔ اِسلامی جماعت کی اصل طاقت اُس کے کارکنان کا باکردار ہونا ہے۔ اگرباکردارہوں تو اِسلامی جماعت کے کارکنان کی وفاداری بشرطِ استواری کے لیے طلاق پر حلف برداری کی نوبت نہیں آتی۔ مگراب ہم مغرب کے رسم ورواج‘ قوانین وقواعد‘ نظام اور نظریہ کے باب میں خاصے لبرل اور روادار ہوگئے ہیں۔ کبھی ہمارے خیالات‘ نظریات اور حمایتوں کا پلڑا ایک طرف کو جھک جاتا ہے کبھی دوسری طرف کو۔ ہمارانصب العین اب صرف یہ رہ گیاہے کہ ہماری بابت مغرب کے سامنے ”نرمی کا تاثر“ یاSoft Image بن جائے۔ اِس نعمت کے حصول کے لیے ہم سب کچھ کرنے ہی کو نہیں‘ سب کچھ بھگتنے کو بھی تیا رہیں۔خواہ وہ ”لوٹوںکی اُمیدواری“ ہو یا انتخابی امیدواروں سے طلاق پر حلف برداری۔ ٭٭٭ ”تذکرہ غوثیہ“ میں ایک قصے کا ذکر آیا ہے۔ لب لباب اُس قصے کا یہ ہے کہ ایک گاؤں مسلمانوں کا تھا۔ وہاں کوئی ہندو آتا تو بہت تکلیف اُٹھاتا‘ کیوں کہ پورے گاؤں میں کوئی گھر کسی برہمن کا نہ تھا۔ گاؤں والوں نے اپنا Soft Image بنانے کے لیے طے کیا کہ ہمیں اپنے گاؤں میں ایک شخص کو برہمن بنادینا چاہیے تاکہ ہم ہنود کی نظروں میں Soft Image بنائیں۔اُن کے آگے عزت پائیں اور اُن کے یہاں ہم بھی اچھے کہلائیں۔ چناں چہ ایک روز ایک قصاب کو منتخب کرکے گاؤں کا برہمن بنادیاگیا۔پس اب جو بھی ہندو گاؤں آتا‘ اُس کے گھر ٹھہر جاتا۔ ایک دفعہ ایک پنڈت جی تشریف لائے۔ تین چاردِنوں کے بعد قصائن نے‘ جو اَب
برہمنی تھی‘ پنڈت جی سے بَوِستا یعنی فتویٰ پوچھا: ”مہاراج! میرے دوبالک ہیں۔ ایک کا نام خدابخش ہے‘ دوسرے کا گنگا رام۔ میں پہلے خدابخش کا ختنہ کرواوؤں یا گنگارام کو جنیﺅ پہناؤں؟ جیسی آپ کی آگّیا ہو ویساکروں“۔ پنڈت جی کا دماغ گھوم گیا۔بولی: ”بھاگ بھری(نیک بخت) تونے یہ کیا بات پوچھی؟ ہماری سمجھ تو کچھ کام نہیں کرتی۔ذرااِس سوال کی تشریح کر“۔ اُس نے تمام حال برہمن بننے کا سُنادیا۔کہا: ”خدابخش اُس وقت پیدا ہواتھا‘ جب ہم قصائی تھے۔اور گنگارام اُن دِنوں پیدا ہوا جب ہم برہمن بن گئے“۔ پنڈت جی یہ تشریح سُن کر بہت گھبرائے۔ کہنے لگی: ”اے بھاگ بھری! تیرا خدابخش بھی اچھا اور گنگارام بھی بہت خوب۔مگردھرم تو میرا نَشٹ ہوا۔ ماراتومیں گیا۔ اب تو مجھے آگّیا دے اور بتا کہ مارے جانے کے بعد میں(ہندوؤں کی طرح)جَلوں یا(مسلمانوں کی طرح)گَڑوں؟“

(روزنامہ جسارت سے ابو نثر صاحب)

عقل کا فیصلہ

بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام کے وقت دفعتًا ہزاروں قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے زمانہ میں گھر گھر پنکھے چلتے ہیں۔ مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت و استعجاب کی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی علّت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ قمقموں کا تعلق جن تاروں سے ہے ان کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان تاروں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا بھی ہم کو علم ہے۔ ان میں کام کرنے والوں پر جو انجینیئر نگرانی کر رہا ہے اس کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجینیئر بجلی بنانے کے کام سے واقف ہے۔ اُس کے پاس بہت سے کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کر رہا ہے جس کے جلوے ہم کو قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر، چکیوں اور کارخانوں کی حرکت میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلافِ رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پُورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے، اور ہم اس کو مشاہدہ کر چکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہوتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یُونہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تار جن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے، ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے ، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھر میں کام کرنے والوں کا بھی ہم کو کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ اس کارخانہ کا کوئی انجینیئر ہے جو اپنے علم اور قدرت سے اس کو چلا رہا ہے۔ کیا اُس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے؟ کیا اس وقت بھی ہم اسی طرح ان مظاہر کی علتوں میں اختلاف نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کا جواب نفی میں دیں گے، کیوں؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیدہ ہوں اور مظاہر کی علتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہو جانا، دماغوں کا اس رازِ سربستہ کی جستجو میں لگ جانا، اور اس راز کے متعلق قیاسات و آراء کا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
فریق اول۔ قیاس و گمان کرنے والے
اب ذرا اِسی مفروضے پر سلسلہ کلام کو آگے بڑھائیے۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے درحقیقت عالَمِ واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں قمقمے روشن ہیں، لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کر رہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہر و آثار کو دیکھ کر ششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں، ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں جو انہیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں انہی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پیدا کر دی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس عالم مادہ سے ماوراء چند دیوتا ہیں جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہو کر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی کُنہ تک نہیں پہنچ سکتی، ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اُس کی نہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تکذیب۔
یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن و تخمین کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔
فریق دوم: حاملانِ علم
اس دوران میں کہ یہ اختلافات برپا ہیں، ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائیو میرے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ اس ذریعہ سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں، پنکھوں، گاڑیوں، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جن کو تم محسوس نہیں کرتے۔ ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑی عظیم الشان کلیں ہیں جنہیں بےشمار اشخاص چلا رہے ہیں، یہ سب اشخاص ایک بڑے انجینیئر کے تابع ہیں، اور وہی انجینیئر ہے جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوے کو پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اسے دیوانہ قرار دیتے ہیں، اس کو مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں۔ مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے تول میں ذرّہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کمزوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی بجنسہٕ یہی قول اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے جو اس کے پیشروؤں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے ظلم و سِتم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر طریقہ سے ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول سے باز آ جائیں۔ مگر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوت ان کو اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم و استقامت کے ساتھ اُن لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے۔ ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اخلاق پاکیزہ ہیں، سیرتیں انتہا درجہ کی نیک ہیں، اور حسنِ خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنون کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیبِ اخلاق، تزکیہ نفس اور دنیوی معاملات کی اصلاح کے لیے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علماء اور عقلاء کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صَرف کر دینی پڑتی ہیں۔

عقل کی عدالت میں:
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذّبین ہیں اور دوسرے طرف یہ متّحد الخیال مدّعی۔ دونوں کا معاملہ عقلِ سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے، پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے، اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابل ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امرِ واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کے سامنے صرف فریقین کے بیانات، ان کے دلائل، ان کے ذاتی حالات اور خارجی آثار و قرائن ہیں۔ انہی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اُسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیّت سے بڑھ کر بھی وہ کوئی حکم نہیں لگا سکتا، کیونکہ مسل پر جو کچھ مواد ہے اس کی بنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امرِ واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے، لیکن قطعیّت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کر سکتا۔
مکذبین کی پوزیشن یہ ہے:
1.حقیقت کے متعلق ان کے نظریے مختلف ہیں اور کسی ایک نکتہ میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔ حتی کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
2. وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وزنی ہیں۔ مگر اپنے قیاسات کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
3. اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد، ایمان و یقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں تبدیلی رائے کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریہ کو پورے زور کے ساتھ پیش کر رہا تھا، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریہ کی تردید کر دی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کر دیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔
4. مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا، انہوں نے مخفی تارہم کو نہیں دکھائے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انہی سے ہے، نہ انہوں نے بجلی کا وجود تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت کیا، نہ بجلی گھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معائنہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجینئر سے ہم کو ملایا، پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے۔
1.وہ سب آپس میں متفق القول ہیں۔ دعویٰ کے جتنے بنیادی نکات ہیں، ان سب میں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔
2. ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہماے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کا پاس نہیں ہے۔
3. ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بنا پر ایسا کہتے ہیں بلکہ سب نے بالا تفاق کہا ہے کہ انجینئر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں۔ اس کے کارندے ہمارے پاس آتے ہیں، اس نے اپنے کارخان کی سیر بھی ہم کو کرائی ہے اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم و یقین کی بنا پر کہتے ہیں۔ ظن و تخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
4. ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرہ برابر بھی تغیرو تبدل کیا ہو۔ ایک ہی بات ہے جو ان میں کا ہر شخص دعویٰ کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
5. ان کی سیرتیں انتہاد درجہ کی پاکیزہ ہیں۔ جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے او رکوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہوں، وہ خاص اسی معاملہ میں بالا تفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
6. اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعوٰی پیش کرنے سے ان کے پیشِ نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر نے اس دعوے کی خاطر سخت مصائب برداشت کیے ہیں، جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گئے، مارے گئے اور پیٹے گئے، جلا وطن کیے گئے، بعض قتل کر دیے گئے، حتیٰ کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا، اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی میسرنہ ہوئی۔ لہٰذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پر نہیں لگایا جا سکتا۔ بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کو اپنی صداقت پر انتہا درجے کا یقین تھا۔ ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
7. ان کے متعلق مجنون یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجہ کے دانشمند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانشمندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ ان سب کو اسی خاص معاملہ میں جنون لاحق ہو گیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو اُن کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو۔ جس کے لیے انہوں نے دنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو۔ جس کی خاطر وہ سالہا سال دنیا سے لڑتے رہے ہوں۔ جو ان کی ساری عاقلانہ تعلیمات (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذّبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
8. انہوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجینیئر یا اس کے کارندوں سے تمہاری ملاقات کرا سکتے ہیں، یا اس کا مخفی کارخانہ تمہیں دکھا سکتے ہیں، یا تجربہ اور مشاہدہ سے اپنے دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کو “غیب” سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔

عدالت عقل کا فیصلہ
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر و آثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب و علل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظر میں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اوّلًا اُن میں سے کسی میں استحالہ عقلی نہیں ہے، یعنی قوانین عقلی کے لحاظ سے کسی نظریہ کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا صحیح ہونا غیرممکن ہے۔ ثانیًا ان میں سے کسی کی صحت تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جا سکتی۔ نہ فریق اول میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کر دے، اور نہ فریق ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غوروتحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں جن کی بنا پر تمام نظریات میں سے فریق ثانی کا نظریہ قابل ترجیح قرار پاتا ہے۔
اولًا، کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیر، صادق القول آدمیوں نے متفق ہو کر اتنی قوت اور اتنے ایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیًا، ایسے پاکیزہ کیریکٹر اور اتنے کثیر التعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اِس دعوے پر متفق ہو جاتا کہ ان سب کے پاس ایک غیرمعمولی ذریعہ علم ہے، اور ان سب نے اس ذریعہ سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کیا ہے، ہم کو اس دعوے کی تصدیق پر مائل کر دیتا ہے۔ خصوصًا اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انہوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالہ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانین عقلی کی بنا پر محال قرار دی جا سکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیرمعمولی قوتیں ہوں جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثًا، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے بھی اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لیے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کارخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اور متحرک ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔نہ اُن کی روشنی و حرکت ان کے مادہ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے، کیونکہ جب وہ متحرک و روشن نہیں ہوتے اس وقت بھی یہی ترکیبِ جسمی موجود رہتی ہے۔ نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیرِ اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہو جاتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہو جاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہٰذا خارجی مظاہر کی توجیہ میں فریق اول کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں، وہ سب بعید از عقل و قیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کارفرما ہو اور اس کا سررشتہ کسی ایسے حکیم توانا کے ہاتھ میں ہو جو ایک مقررہ نظام کے تحت اس قوّت کو مختلف مظاہر میں صَرف کر رہا ہو۔
باقی رہا مشککین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آیت، اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذین ہم نہیں کر سکتے، تو حاکمِ عقل اس کو بھی درست نہیں سمجھتا کیونکہ کسی بات کا واقعہ ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ وہ سُننے والوں کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے لیے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند آدمی آ کر کہیں کہ ہم نے زمینِ مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اُڑتے دیکھا ہے، اور اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکا کا گانا سُن آئے ہیں، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہے؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی کوئی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہو گیا کہ وہ نہ جھُوٹے ہیں، نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس سے وابستہ ہے۔ اور اگر ہم نے دیکھا کہ اس کو بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقل مند لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں تو ہم یقینًا اس کو تسلیم کر لیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اُڑنا اور کسی محسوس واسطہ کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلہ پر سُنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
ایمان کیسے نصیب ہوتا ہے۔
یہ اس معاملہ میں عقل کا فیصلہ ہے مگر تصدیق و یقین کی کیفیت جس کا نام “ایمان” ہے اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دل کے ٹھک جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے جو تکذیب، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کر دے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم و بصیرت کی رُو سے بیان کیا ہے۔

(یہ مضمون مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات” سے لیا گیا ہے اسے پاک فورمز پر جناب عبداللہ حیدر بھائی نے کمپوز کرکے پیش کیا تھا”)

گزارشِ احوال

گزارشِ احوال
اعترافِ عظمت کے لیے بھی باعظمت انسان ہونا ضروری ہے۔ میں نے مصر کی روایتی بڑھیا کی طرح یوسفؑ کی خریداری کا کئی بار عزم کیا۔ یعنی چاہا کہ ماہ عربؐ کی سیرت لکھوں لیکن مداح اور ممدوح میں ذرہ اور آفتاب کا فرق پاکر ہمت ہاردی۔
جب میں اس بار گرفتار ہو کر سنٹرل جیل میں آیا تو طبیعت نے تنہائی کا مشغلہ تلاش کرنا شروع کیا۔ ابھی کچھ فیصلہ نہ کرپایا تھا کہ میرا تبادلہ لاہور سے ملتان نیو سنٹرل جیل میں ہوگیا۔ چند ہی روز میں میری روح میں خوشگورا انقلاب پید اہوگیا۔ مجھے ایام اسیری یوں معلوم ہوئے گویا موسم بہار میں محروم محبت کے گھر میں محبوب اچانک آگیا ہو اور وہ استقبال کی خوشی اور دیدار کی مسرت میں اِدھر اُدھر پھر رہا ہو۔ انہی کیفیتوں میں ٗمیں نے جیل کے ساتھیوں مولانا حبیب الرحمٰن صاحب، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی صاحب اظہر اور مولانا عبد الرحمٰن نکودری کے ایماء پر اس کتاب کو شروع کیا ۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد میرا تبادلہ ملتان سے راولپنڈی جیل ہوگیا۔ قدرت کو منظور تھا کہ میں یہاں کے دوستوں کو چھوڑکر ایک غریب الوطن قیدی کا انیس تنہائی بنوں۔
راولپنڈی جیل میں ایک بم ساز اور بم بار بنگالی نوجوان ڈاکٹر بوس 57 سال کی لمبی قید کاٹ رہا تھا۔ وہ نوجوان تھا لیکن علم اور ایثار میں اپنا جواب آپ تھا ۔ وہ وطن عزیز کی غلامی کا ذکر جس جذبے سے کرتا تھا اس کی داد دینے کے لیے موزوں الفاظ نہیں ہیں۔ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات سے بڑا شغف تھا ۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر متعدد انگریزی کتابیں اس کے پاس ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ مجھے اس کے ذخیرہ کتب سے بہت ہی فائدہ پہنچا۔ اس کے علاوہ سیرت النبیؐ مصنفہ شبلی نعمانیؒ ہر وقت پیش نظر رہی۔ عربی عبارتوں کے تراجم اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
محبت ضابطوں کی پابند نہیں ہوتیٗ اور اکثر اوقات ادب واحترام کی حدود بے خبری میں نظر انداز ہوجاتی ہیں۔ میں نے شوق محبت کے باوجود انتخاب الفاظ میں احتیاط برتی ہے۔ اگر کہیں بے احتیاطی برتی گئی ہو تو اطلاع دی جائے تاکہ دوسری ایڈیشن میں تصحیح ہوسکے۔
افضل حق

محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریر چوھدری افضل حق

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں بھی بلاگرز کی طرف سے کتاب والی مہم میں شامل ہونے جارہا ہوں کتاب جو پیش کروں گا اس کا نام ہے ” محبوب خدا” جوہدری افضل حق نے پیش کی ہے۔ ان کا تعارف ان شاء اللہ اس پوسٹ میں آئندہ دے دوں گا. میں نے اس کے لیے زمرہ ” ہمارے باپ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” اللہ کی قسم تمام مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی اولاد ہیں اسی لیے میں نے اس زمرہ کا یہ نام رکھا ہے میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ مجھے میرے آقا کے نزدیک کردے عمل میں، انکے اور اپنے بارے علم میں آمین
اور جو بھی میرے اس زمرے میں شامل مواد کو پڑھے اس کے لیے بھی میری یہی دعاء ہے۔ جو بھی میرے آقا کو پانے کے لیے نکلےاس کے لیے بھی یہی دعاء
اور مجھےمسلمانوں سے خصوصاً اور باقیوں سے عموماً محبت، احترام کا رشتہ قائم کرنے کی توفیق دے۔ کوئی اچھا بنے نہ بنے میں ضرور بنوں کوئی میرے آقا پر ایمان لائے نہ لائے میں تو ضرور سب سے پہلے ایمان لانا والا بنوں۔ آمین
مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں آمین۔

 

احباب سے ایک مشورہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں کل ورڈ پریس ڈاٹ پی کے پر پہنچا تو دل میں آیا کہ یہاں اردو کی سپورٹ زیادہ بہتر لگ رہی ہے توکیوں نہ بلاگ وہاں لے چلوں آپ لوگوں اپنے تجربات کی روشنی مجھ پر بھی ڈالیں